میاں ثنا اللہ
اس وقت کورونا کے نام سے ایک مہلک وبا نے پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس وبائی مرض سے تادم تحریر ہزاروں انسان موت کا شکار ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ مرض ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ چارہ گر اپنی اپنی کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح اس مرض پر قابو پایا جاسکے۔ اس وبائی مرض کے پھیلائو نے پوری دنیا کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے اور ہر ایک اس کی اپنی اپنی توجیح پیش کررہا ہے۔ کوئی اسے حیاتیاتی جنگ کا نام دے رہا ہے اور کوئی اسے حرام جانوروں کو انسانی خوراک بنانے کی وجہ قرار دیتا ہے۔ عقل و فہم انسانی شعور و آگہی، نت نئی سائنسی ایجادات کی معراج کو چھونے والا انسان اس نامعلوم اور اَن دیکھی طاقت کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے۔ وہ انسان جو کل تک اس گھمنڈ میں مبتلا تھا کہ وہ اپنی تحقیق کی بنیاد پر کوئی مصنوعی انسان (نعوذباللہ) بھی بنا ڈالے گا آج وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنے گھر میں دُبکا بیٹھا ہے۔ اس مہلک اور جان لیوا مرض کے معرض وجود میں آنے کی جتنی بھی تعبیریں کی جائیں سب کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ انسان کے اپنے ہی ہاتھ کی کمائی ہے اس لیے کہ میرا اور آپ کا ربّ یہ فرماتا ہے:’’اور جو پہنچتی ہے تمہیں کوئی مصیبت سو وہ کمائی ہوتی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی‘‘ (سورئہ الشوریٰ آیت :30)۔
انسان جب اپنے خالق و مالک کے اقتدار، طاقت اور قوت کا مقابلہ کرنا شروع کردیتا ہے اور اس کی عطا کردہ نعمتوں اور صلاحیتوں کا خود مالک بن بیٹھا ہے اور ایسے ایسے اعمال و افعال کرنا شروع کردیتا ہے جو اس کے مالک حقیقی کی ناراضی کا ذریعہ اور سبب بنتے ہیں تو پھر بحر و بر میں ایک فساد کا برپا ہونا ایک قدرتی امر بن جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’برپا ہوگیا ہے فساد خشکی اور تری میں، سبب اس کے جو کماتے ہیں ہاتھ، انسانوں کے تا کہ مزہ چکھائیں انہیں ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آجائیں۔ (الروم آیت:41) آج کا انسان اپنے ایسے ہی کرتوتوں کی بنا پر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالے ہوئے ہے۔ ایک ایسی ہلاکت جو اس سے پہلے اس روئے زمین پر شاید کبھی نہیں آئی۔ جنگ عظیم اوّل اور دوم کی ہلاکت نے بھی زمین کے کچھ حصے کو متاثر کیا تھا اور زمین کا ایک حصہ اور اس پر بننے والی نسل آدم اس سے بھی محفوظ رہی تھی۔ لیکن آج تو ایک ایسی ہلاکت برپا ہے کہ جو قیامت کا منظر پیش کررہی ہے۔ قرآنِ حکیم کی سورئہ ’’العبس‘‘ کے مطابق ہر رشتہ اپنے دوسرے رشتے سے منہ موڑے ہوئے ہے اور ہر ایک کو صرف اور صرف اپنی فکر ہے۔ مرض کے لاحق ہونے کے خوف نے ہر انسان کو اسے اپنے گھر اور گھر کے ایک کمرے، کونے تک محدود کردیا ہے اور خوف کی اس کیفیت نے اسے بھوک سے دوچار کردیا ہے۔ یہ وسیع و عریض دنیا جب سے جغرافیائی تقسیم اور حد بندیوں کے ساتھ مختلف ممالک کے اپنے اپنے ناموں سے پہچانی جانی شروع ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر ملک اپنے تئیں ایک اپنی دنیا کا مالک ہے اور اس میں اپنی من مانی کرنا وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ اس ملک کے ارباب حل و عقد صاحب اقتدار طبقہ بالخصوص اس بات کو بھلا بیٹھا ہے کہ ان سب نعمتوں اور آسائشوں کا عطا کرنے والا کوئی اور ہے اور یہی حال عوام الناس کا بھی ہے۔ دنیا کتنی بھی پھیل جائے اور ملک کتنے بھی معرضِ وجود میں آجائیں اللہ کے نزدیک تو پوری کائنات ایک بستی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور جب بستی والے اپنے خالق و مالک کی نافرمانی و ناشکری کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو پھر وہ اللہ جس نے انہیں ہر طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے ان پر بھوک اور خوف کا لباس اوڑھا دیتا ہے۔ جس کا ذِکر اس سے قرآنِ حکیم میں یوں کیا ہے: ’’اور دیتا ہے اللہ مثال ایک بستی کی جو تھی امن اور اطمینان والی، پہنچتا تھا انہیں ان کا رزق بافراغت ہر جگہ سے پھر ناشکری کی ان لوگوں نے اللہ کی ان نعمتوں کی تو اوڑھا دیا اللہ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس، ان کرتوتوں کے سبب جو وہ کرتے تھے۔ (النحل آیت:112)
کورونا نام کے اس وبائی مرض نے دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں ایک ایک شہر میں روزانہ اربوں روپے کی معیشت کا نقصان ہورہا ہے اور ملکوں کا نقصان تو کھربوں کے حساب سے ہے۔ ماہرین معیشت اس بات کا اندیشہ ظاہر کررہے ہیں کہ غریب ممالک یا جو ابھی ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اگر ایسی ہی صورت حال (اللہ نہ کرے) کچھ عرصہ اور رہی تو وہاں کے لوگ فاقوں کا شکار ہونا شروع ہوجائیں گے۔ غریب تو غریب، امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک کو بھی اپنی معیشت ڈوبتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اور جلد یا بدیر اس خوف کی کیفیت سے نکلنے کے بعد بھی دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آنے میں سالہا سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ معیشت کی یہ تنگی بھی انسان کے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اس لیے کہ اس کا ربّ تو اسے پکار پکار کر کہتا ہے: ’’اور جو منہ موڑے گا میری کتاب ہدایت سے تو یقینا ہم اس پر اس کی معیشت کو تنگ کردیں گے‘‘۔ (طہٰ آیت:124) جب انسان اللہ کی یاد سے منہ موڑ کر دنیوی زندگی کے لہو ولعب میں مبتلا ہوجاتا ہے، شرم و حیا کو چھوڑ کر بے شرمی اور برہنگی میں فخر محسوس کرنے لگتا، معاشی، معاشرتی ہر عمل کے ظلم و ناانصافی کو اپنا وتیرہ بنالیتا ہے جیسا کہ آج کل دنیا میں ہورہا ہے تو پھر اللہ کہتا ہے۔ ’’اور جو منہ موڑے گا اپنے ربّ کی یاد سے، مبتلا کردے گا وہ اسے سخت عذاب میں۔ (الجن آیت:17)
انسان اپنے رویوں کی بنیاد پر اپنے ربّ کی ناراضی مول لیتا ہے اپنی نافرمانیوں کے سبب اس کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ سرکشی اختیار کرکے اسے انتقام لینے پر مجبور کردیتا ہے۔ جب انسان اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے سے سرشار ہو کر اپنے ہی جیسے انسانوں پر مشقِ ستم ڈھاتا ہے، ان کی عزتوں کو پامال کرتا ہے ان کی آزادیوں کو سلب کرلیتا ہے، انہیں ان کے گھروں سے، وطنوں سے نکال باہر کرتا ہے یا پھر انہیں ان کے گھروں میں محصور کردیتا ہے۔ جیسا کہ اس وقت چین کے ایغور مسلمانوں، فلسطین، شام، برما، ہندوستان، عراق اور کشمیر کے مسلمانوں اور دیگر انسانوں کے ساتھ ہورہا ہے، اور دنیا کا نسل آدم کا ایک حصہ ان ظالموں اور غاصبوں کا ہم نوا ہے یا پھر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، جو اس ظلم و جور کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یا اٹھانے والے ہیں ان کی آواز اتنی کمزور و نحیف ہے کہ وہ ان کے اپنے گھروں کے باہر تک سنائی نہیں دیتی یا پھر ان کی بات سنی ان سنی کردی جاتی ہے۔ اور جو بزور بازو ان مظالم کو بند کروانے کی طاقت رکھتے ہیں وہ اپنے مفادات اور دنیوی عیش و عشرت کو ان مظلوموں اور بے کسوں کی آہوں اور سسکیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔تو پھر اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے اور وہ اپنے کہے ہوئے کو پورا کر دکھاتا ہے اور نسل آدم کے اس گروہ کے بارے میں کہتا ہے: ’’اور ضرور چکھائیں گے ہم ان کو مزہ دنیاوی عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے شاید کہ وہ باز آجائیں۔ اور کون ہے بڑا ظالم اس شخص سے جسے یاد دہائی کرائی جائے اس کے ربّ کی آیات کے ذریعے سے، پھر بھی وہ منہ پھیرے رہے ان سے۔ یقینا ہم مجرموں سے انتقال لے کر رہیں گے۔ (السجدہ:21،22)
(جاری ہے)