وقت کے سرکش گھوڑے کی لگامیں ٹوٹی جاتی ہیں

153

وقت کے سرکش گھوڑے کی لگامیں ٹوٹی جاتی ہیں۔ کوئی دن جائے گا کہ تاریخ اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔ اجتماعی حیات کو بدعنوانوں کے اس ٹولے کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جو اپنا جواز جمہوریت سے نکالتے ہیں مگر جمہوریت کے کسی آدرش سے تو کیا علاقہ رکھتے، اس کے اپنے بدعنوان طریقۂ اظہار سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ الامان والحفیظ! تاریخ میں حکمرانوں کے ایسے طرز ہائے فکر کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ جو اپنی بدعنوانیوں کے جواز میں ریاست تک کو برباد کرنے پر تُل جائیں۔ پاناما لیکس کوئی چھوٹا معاملہ نہیں۔ جسے نسیان کی نذر کردیا جائے یا وزیراطلاعات کے پرویز رشید کے ہذیان میں نظرانداز کردیا جائے۔
حکومت اور حزب اختلاف اس پر اپنا ’’پینگ پانگ‘‘ کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاناما لیکس پر ضوابط کار کی تشکیل کے لیے حکومت اور حزب اختلاف میں ’’اجلاس اجلاس‘‘ کے کھیل کے بعد اب دونوں اپنے اپنے مسودہ قوانین کی بحث میں وقت ضائع کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومت ایک ’’انکوائری کمیشن ایکٹ‘‘ کو منظور کرانے کے بعد اب یہ باور کرا رہی ہے کہ ملک میں شفافیت لانے کے لیے کبھی ایسا کوئی قانون سوچا تک نہیں گیا جو اُس نے منظور بھی کرا دیا۔ اور اب ملک میں یہ معجزہ ہونے والا ہے کہ گھوڑا کھاس کھائے بغیر زندگی جیے گا۔ یوں لگتا ہے کہ وقت گزاری کے اس مشغلے میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک گہری مفاہمت ہوئی ہے جو اتفاق نہ کرنے پر اتفاق کرنے کی ہے۔ تاکہ دونوں لڑ کر مملکت کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہوئے احتساب کے اُس دباؤ کو تحلیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو کچھ خاکی پوشوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ باہمی لڑائی کا یہ طوفان احتساب کے دباؤ کو کم اور خاکی پوشوں کی میعادِ ملازمت کے وقتِ اختتام کو قریب لانے میں زیادہ معاونت کررہا ہے۔
پاکستان کبھی بھی حقیقی ترقی کا سفر شروع نہیں کرسکتا اگر یہاں انصاف اور جواب دہی کا نظام مستحکم نہ کیا گیا۔ عربی محاورہ یہ ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ سماجی علوم کے وفورِ شعور سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں خیر ہمیشہ نیچے سے اوپر جاتا ہے۔ مگر شر ہمیشہ اوپر سے نیچے آتا ہے۔ ملک کی اشرافیہ نے پورے سماج کو بدعنوانی کی آکاس بیل میں لپیٹ لیا ہے۔ اور بدعنوانی کی یہ طینیت نیچے تک اپنی چَھب دکھلانے لگی ہے۔ ملک میں کوئی شعبہ اور اس کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں بدعنوانیوں نے گھر نہ کر لیا ہو۔ دیانت داری کی اِکا دُکا آوازیں اب اجنبی سی لگتی ہے۔ ایسے عَالم میں اگر ملک کے اندر احتساب کے بلا امتیاز اور ہمہ گیر عمل کو فروغ نہ دیا گیا تو پاکستان کو بیرونی قوتوں سے زیادہ نقصان ان اندرونی قوتوں سے پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
دسترخوانی قبیلے اور موٹے پیٹوں کے لشکر نے بدقسمتی سے پاکستان میں دانش کا ایک ایسا طوفان اُٹھایا ہے جو یہ باور کرارہا ہے کہ جمہوریت میں اہمیت تسلسل کی ہے اور تسلسل کے ساتھ ہونے والے انتخابات میں معاشرہ خود بخود بدعنوانوں کو پرچی کی طاقت سے نکال باہر کرتا ہے۔ یہ ایک ناقص تصور ہے، جو خود جمہوریت کے اپنے بنیادی تصور سے یا تو لاعلمی پر مبنی ہے یا پھر فکری بددیانتی کا نتیجہ ہے۔ جمہوریت دراصل احتساب کے ایک نظام کے ساتھ وابستہ تصور ہے جس میں انتخاب کے بعد منتخب افراد کی نگرانی مختلف آئینی اداروں کے ذریعے ہوتی ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں یہ تمام آئینی ادارے بھی بدعنوانوں کے تحفظ کا آلہ کار بن چکے ہیں۔ بدعنوانوں کے محاسبے کا سب سے بڑا ادارہ ایک ایسے سربراہ کی نگرانی میں ہے جس پر الزامات کی ایک پوری فہرست زیر گردش ہے۔ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ روز ایک مقدمے کی سماعت میں اس پر اظہار ناراضی کیا ہے کہ ڈی جی نیب سندھ بڑوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے چھوٹوں کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ یہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی روش ہے۔ ایسے ہی ماحول کے متعلق ایک پیغمبر نے اپنی امت کو بتایا تھا کہ وہ چیونٹیوں کو تو چھانتی ہے مگر سالم اونٹ نگل لیتی ہے۔
پاکستانی جمہوریت دراصل اشرافیہ کی جمہوریت ہے۔ جس میں ریاستی ادارے اشرافیہ کی ماتحتی اور اطاعت گزاری میں مصروف رہتے ہیں۔ اس نوع کی جمہوریت کے متعلق دستر خوانی قبیلہ مُصر ہے کہ اس کی تکریم کی جائے۔ اور اس کی تقدیس کے گیت گائے جائیں۔ یہ وہ جمہوریت ہے جو سرمائے کے منتر سے حرکت کرتی ہے۔ اور اس کی تکریم و تقدیس کے لیے لکھے گئے الفاظ اور بولے گئے بول سب کے سب سرمائے سے جنبش کرتے ہیں۔ ایسی جمہوریت کو بچانے کی جدوجہد بجائے خود عام لوگوں کے استحصال کی حمایت ہے۔ یاد رہے کہ جمہوریت کی اس شکل پر گفتگو کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسانی شعور سے بغاوت کے مرتکب اور انسانی تکریم کے مخالف آمرانہ نظام کی کوئی گنجائش نکالی جائے جیسا کہ دستر خوانی قبیلہ عام طور پر اس نوع کی حقیقی بحث کو آمریت سے تقابل میں بدلنے کی مکارانہ کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی غلط فہمی سے بچنے کے لیے بھارت کی مثال لے لیتے ہیں۔ جہاں جمہوریت ایک تسلسل کے ساتھ اپنے قیام کے اول روز سے جاری ہے۔ بھارتی جمہوریت جرائم اور بے پناہ سرمائے کے اکٹھ سے وجود میں آنے والا ایک نظام ہے۔ بھارت کے آخری انتخابات کے متعلق بھارتی تھنک ٹینک ’’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اس میں حصہ لینے والے تیس فی صد امیدوار جرائم پیشہ تھے۔ جن پر باقاعدہ قتل، اقدام قتل، زیادتی، بھتا خوری اور زمینوں پر قبضے کے مقدمات قائم ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں انتخابات میں حصہ لینے والے 150 امیدواروں میں سے 23 امیدواروں کے خلاف تو باقاعدہ جرائم کے مقدمات قائم تھے۔ بھارت میں بی جے پی نے جس انتخابی اتحاد یعنی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے ماتحت انتخابات میں حصہ لیا، اُس کے 430 امیدواروں میں سے 189 کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج ہیں۔ جن میں سے اکثر کامیاب بھی ہوگئے۔ یہ پہلو اس اعتبار سے نہایت اہم ہے کہ پاکستان یا بھارت میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد کا ہر نئے انتخابات میں زیادہ بڑی تعداد میں سامنے آنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔
سرمائے کے تناظر میں اس جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو بھارتی الیکشن کمیشن نے فی امیدوار 70لاکھ روپے اخراجات کی منظوری دی تھی۔ جو بی جے پی کے صرف 543 امیدواروں کے لیے تین ارب اسی کروڑ روپے بنتے تھے۔ مگر بی جے پی نے اس انتخابی مہم میں پندرہ ہزار کروڑ روپے خرچے تھے۔ بی جے پی نے صرف پرنٹ میڈیا میں ایک سو اخبارات اور جرائد میں سے صرف 55 اخبارات وجرائد کو 650 کروڑ روپے کے اشتہارات دیے تھے۔ اِسے بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی طرف سے عوام پر کاپوریٹ بمباری کہا گیا تھا۔ پاکستان کا معاملہ اس سے قطعاً مختلف نہیں۔ اگلی کئی صدیوں تک بھی انتخابی عمل کو ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے تب بھی اس میں کوئی جوہری بدلاؤ نہیں آسکے گا۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے۔ اس میں توانائیاں ضائع کرنے والے افراد اور جماعتیں اپنی بے بسی کی تاریخ میں اضافہ کررہی ہیں۔ ایسی جمہوریت سے ہمیں ہمیشہ صدر کی صورت میں آصف زرداری، ممنون حسین اور وزرائے اعظم کی صورت میں راجا پرویز اشرف اور گیلانی یا نوازشریف ہی ملیں گے۔ جس کے نتیجے میں پاناما لیکس ایسے بھدنامے پینے پڑیں گے۔ اور احتساب کے لیے قانون سازی کے نام پر سیاست دانوں کی باہمی تکرار کے ڈرامے برداشت کرنے پڑیں گے اور پرویز رشید کی گفتگو سننے کے جاں گسل لمحات گزارنے پڑیں گے۔ پھر بھی صدیاں بیت جائیں گی کوئی بدلاؤ نہیں آئے گا۔ یہ دائروں کا سفر ہے جس میں دائرے کبھی ختم نہیں ہوتے، بس مسافر مرجاتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ایسے ہی رہے گا؟ تاریخ کی بے رحم قوتیں جب بروئے کار آتی ہے تو وہ افراد ہی نہیں دائرے بھی توڑ دیتی ہے۔ پاکستان اپنے لمحہ برحق کے سنگم پر کھڑا ہے۔