برطانوی ہندوستان کی تاریخ پر ’’شرمناک داغ‘‘ کے طور پر امرتسر میں 1919 میں جلیانوالہ باغ قتل عام۔ اسے امرتسر کا قتل عام بھی کہا جاتا ہے اور ہندوستان کی تاریخ کا ایک انتہائی المناک واقعہ ہے۔ اس واقعے کو آج ایک سو ایک سال ہوچکے ہیں‘ مگر برصغیر میں مقبوضہ کشمیر کی کتاب کا ہر ورق گواہی دے رہا ہے آج بھی جنرل ڈائر کا کردار زندہ ہے‘ جلیانوالہ باغ قتل عام کیا تھا؟‘ اس قتل عام نے انگریزوں کے غیر انسانی سلوک کو بے نقاب کیا جب برطانوی فوج نے فائرنگ کی‘ 13 اپریل کو لوگ دونوں قوم پرست رہنماؤں ستیہ پال اور ڈاکٹر سیف الدین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے جمع ہوئے۔ اچانک، برطانوی فوجی افسر، جنرل ڈائر، اپنی فوج کے ساتھ پارک میں داخل ہوا۔ یہاں تک کہ لوگوں کو منتشر ہونے کی وارننگ دیے بغیر، اس نے اپنے دستوں کو دس منٹ تک نہتے ہجوم پر فائرنگ کا حکم دیا اور جب ان کا گولہ بارود ختم ہو گیا تو وہ وہاں سے چلے گئے۔ ان دس منٹ میں، ایک ہزار افراد ہلاک اور 2000 کے قریب زخمی ہوئے۔ جلیانوالہ باغ کی دیواروں پر گولیوں کے نشانات اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہ قتل عام ایک حساب کتاب تھا اور ڈائر نے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ اس نے لوگوں پر‘ اخلاقی اثر ’پیدا کرنے کے لیے کیا ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے یہ وہی لوگ ہیں جن کی نسل کا تعلق جنرل ڈائر کی روح سے ہے‘ تقریباً 21 سال بعد، 13 مارچ 1940 کو، ایک ہندوستانی انقلابی، اودھم سنگھ نے مائیکل او ڈوئیر کو گولی مار کر ہلاک کردیا، جو جلیانوالا باغ قتل عام کے وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے‘ یہ رد عمل تھا‘ رد عمل کوئی دن دیکھتا ہے اور نہ عشرے‘ وہ صرف موقع کی تلاش میں ہوتا ہے‘ ایک مقبوضہ کشمیر کیا؟ جہاں جہاں جنرل ڈائر کی روح کی نسل کے لوگ موجود ہیں‘ انہیں ایک روز ردعمل کا سامنا ضرور کرنا ہوگا۔ جب انہیں اپنے جرم کا نتیجہ ملے گا‘ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس قتل عام نے ہندوستانی عوام کو مشتعل کردیا اور حکومت نے مزید بے رحمی کے ساتھ جواب دیا۔ پنجاب میں لوگوں کو سڑکوں پر رینگنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ انہیں کھلے پنجرے میں ڈال کر کوڑے مارے گئے۔ اخبارات پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور ان کے مدیران کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا یا ملک بدر کردیا گیا تھا‘ آج کیا ہو رہا ہے‘ آج کا سماج‘ زمانہ‘ میڈیا اور لوگ کیا کسی ظلم کا شکا نہیں ہورہے؟ کشمیری عوام‘ فلسطینی مسلمان‘ کیا جنرل ڈائر کی روح سے نہیں لڑ رہے؟
جلیانوالہ باغ قتل عام کے دوران ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں آج بھی یہی بات کی جارہی ہے کہ کوئی قابل اعتبار اعداد و شمار نہیں ہیں کہ ملک میں کتنے لوگ مستحق ہیں مستحق لوگ تلاش کرنا ذمے داری کس کی ہے؟ برصغیر کی تاریخ میں ہمارے لیے بہت سبق ہے اس قتل عام نے جدوجہد آزادی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کا نشان لگایا دسمبر 1919 میں، کانگریس کا اجلاس امرتسر میں ہوا۔ اس میں کسانوں سمیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ظلم و درندگی نے آگ کو صرف ایندھن میں شامل کیا تھا اور لوگوں کی آزادی اور جبر کے خلاف جدوجہد کرنے کے عزم کے لیے راہ کھل گئی تھی… ملک میں اس وقت کورونا وائرس کا بحران ہے‘ لاک ڈائون بھی ہے‘ جنرل ڈائر نے بھی لاک ڈائون کیا تھا‘ آج بھی پوری دنیا میں یہی کیفیت ہے‘ ہر ملک لاک ڈائون کا شکار ہے‘ اس لاک ڈائون میں دنیا کیا مانگ رہی ہے؟ کہیں ماسک نہ پہننے پر گولی مار دی جاتی ہے اور کہیں ڈبل سواری پر پکڑ دھکڑ ہے‘ عالمی مافیا چاہتا کیا ہے؟ حکومت کی ذمے داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے‘ انہیں اندرونی مصائب اور بیرونی جارحیت سے بچائے‘ کورونا بیرونی جارحیت ہے؟ حکومت شہریوں کی حفاظت کے لیے جو چاہتی کرے‘ مگر اسے تعلیم‘ صحت‘ سماجی ضرورتوں‘ خوراک کی فراہمی کا بندوبست کرنا ہوگا‘ عوام نے حکومت یہ بات بھی تسلیم کی ہے کہ وہ باجماعت نماز کے لیے مسجد نہیں جارہے‘ اب حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ محض فوٹو سیشن نہیں‘ بلکہ عملی قدم اٹھائے۔