توبہ کی حقیقت آخری قسط

589

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ا): ’’صرف ان لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھا ہے، جو نادانی سے گناہ کربیٹھیں، پھر (احساس ہونے پر) جلد ہی توبہ کرلیں، تو یہ وہ لوگ ہیں، جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا، بہت حکم والا ہے اور ان لوگوں کی توبہ مقبول نہیں ہے، جو گناہ کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی ایک کی موت سر پر آجاتی ہے، تو وہ کہتا ہے: ’’میں نے اب توبہ کی‘‘ اور نہ ان کی توبہ قبول ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں، (النساء: 17-18)‘‘۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سکراتِ موت طاری ہونے تک اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتاہے، (ترمذی)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ہر گز نہیں! بلکہ ان کے کرتوتوں کے سبب ان کے دل زنگ آلود ہوگئے ہیں، (المطففین: 14)‘‘۔
توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ آئینۂ قلب جو گناہوں سے آلودہ ہوچکا ہے، پہلے اسے پاک وصاف کیا جائے تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول مکرم ؐ کی محبت کا رنگ چڑھ سکے، یعنی اس کا نقش ثبت ہوسکے، جس طرح دیوار پر رنگ کرنے والا پہلے سابق رنگ کو کھرچ کر صاف کرتا ہے اور اس کے بعد نیا رنگ کرتا ہے تاکہ وہ دیر پاثابت ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’(تم ان سے کہو:) ہم نے خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر اور کس کا رنگ ہوگا اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں، (البقرہ: 138)‘‘ اور قلب وذہن کی یہ تطہیر توبہ سے ہوتی ہے، اس کے بغیر ممکن نہیں ہے، رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے: ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: (۱): ’’میرے دل پر اَبر سا چھا جاتاہے اور میں دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں، (مسلم)‘‘۔ محدثینِ کرام نے اس حدیث کی کئی توجیہات بیان فرمائی ہیں، ان کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، ان میں سے ایک یہ ہے: رسول اللہ ؐ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وتجلیّات کا نزول ہوتا ہے اور آپ اس کے تشکر کے طور پر استغفار فرماتے ہیں۔ (۲): ’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’بندہ جب گناہ کرتا ہے، تو اس کے دل پر سیاہ دھبا پڑ جاتا ہے، پس اگر وہ گناہ کی کیفیت سے نکل آئے اور اِستِغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ اُس گناہ کا اعادہ کرے تو یہ دھبا پھیلتا چلا جاتا ہے، یہاں تک اس کے قلب کو گھیر لیتا ہے اور یہی وہ ’’رین‘‘ ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ المطففین: 14 میں فرمایا ہے، (سنن ترمذی)‘‘۔
امام الصوفیہ سید علی ہجویری لکھتے ہیں: ’’حجاب دو قسم کا ہوتا ہے: ایک ’’رینی‘‘ کہ بندے کی ذات حق سے حجاب کا سبب بن جائے، تو اس کے نزدیک حق وباطل ایک سا ہوجاتا ہے اور یہ کبھی نہیں رفع ہوتا، قرآن نے اسے رَیْن، خَتْم، طَبع، قَسَاوَت (سنگ دلی)، کُفر، اِغْفَال (غفلت)، قُفل (تالا) اور کِنّ (پردے) سے تعبیر فرمایا ہے اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہے۔ دوسرا ’’غینی‘‘ کہ بندے کی صفت حق سے حجاب بن جائے، یہ توبہ اور ندامت سے اٹھ جاتا ہے‘‘۔ جنید بغدادی فرماتے ہیں: ’’رَین‘‘ کی مثال وطن کی سی ہے اور وطن میں استقلال ہوتا ہے اور ’’غَین‘‘ کی مثال دل پر وارد ہونے والے خیالات ہیں، جو ندامت اور توبہ سے زائل ہو جاتے ہیں اور قلب صاف ہوجاتا ہے، (کَشْفُ الْمَحْجُوْب، ص: 79-80)‘‘، حدیثِ پاک میں ہے: ’’جس نے ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہا، پھر اسی پر اس کی موت واقع ہوگئی، تو وہ جنت میں جائے گا، (بخاری)‘‘، اس کی شرح میں امام بخاری کہتے ہیں: ’’یہ بشارت اس کے لیے ہے، جو موت سے پہلے اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرے اور کلمۂ اسلام پڑھے تو اسے بخش دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے بہت زیادہ راضی ہوتا ہے، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ اس سے اتنا زیادہ راضی ہوتا ہے، جیسے ایک مسافر کی سواری کسی بیابان میں ساز وسامان سمیت گم ہوجاتی ہے، وہ اس کو پانے سے ناامید ہوجاتا ہے اور ایک درخت کے سائے میں ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہے (ایک روایت میں ہے: اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب تو موت یقینی ہے)، اسی ناامیدی کی کیفیت میں وہ اچانک نظر اٹھا کر دیکھتا ہے کہ اس کی سواری ساز وسامان سمیت اس کے سامنے موجود ہے، وہ اس کی لگام پکڑتا ہے اور خوشی کے غلبے کی وجہ سے جلدی میں اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں: ’’اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا ربّ ہوں، (مسلم)‘‘۔ اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ غیرمعمولی خوشی کے غلبے کی وجہ سے بندہ اَز خود رَفتہ ہوجاتا ہے اور کہنا تو یہ چاہتا ہے: ’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں اور تو میرا ربّ ہے‘‘، مگر سبقتِ لسانی کی بنا پر اس کی زبان سے مندرجہ بالا کلمات نکل جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا دامانِ رحمت اُس کے بندوں کے لیے اتنا وسیع ہے کہ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے: ’’ایک بندہ گناہ کرتا ہے، پھر (نادم ہوکر) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے: اے پروردگار! میں نے گناہ کیا ہے، تو اس کی مغفرت فرما، اس کا ربّ فرماتا ہے: کیا میرے بندے کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ایک ربّ ہے، جو گناہ کو بخش بھی دیتا ہے اور (اگر وہ چاہے تو) مواخذہ بھی فرما لیتا ہے، (فرشتو! گواہ رہنا!) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، پھر کچھ عرصہ اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد (بشری تقاضے کے تحت) وہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر (نادم ہوکر) عرض کرتا ہے: پروردگار! میں گناہ کر بیٹھا ہوں، تو اسے بخش دے، اللہ عزّ وجلّ فرماتا ہے، کیا میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا ایک ربّ ہے جو اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور (وہ چاہے تو) مواخذہ فرما لیتا ہے؟، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، پھر کچھ عرصہ اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد (بشری کمزوری کے سبب) وہ گناہ کر بیٹھتا ہے (اور احساس ہونے پر) عرض کرتا ہے: اے پروردگار! میں نے گناہ کرلیا ہے، تو مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا میرے بندے کو یقین ہے اس کا ایک پروردگار ہے، جوگناہوں کو بخش دیتا ہے اور (چاہے تو) مواخذہ فرما لیتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، وہ جو چاہے کرے، (بخاری)‘‘۔
یہ آخری کلمات اس لیے نہیں ہیں کہ بندے کو گناہوں کی کھلی چھوٹ دے دی ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا عفووکرم بندے کو اپنی آغوش میں لے لے، تو پھر وہ گناہوں سے اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ گناہوں سے اسے فطری طور پر نفرت ہوجاتی ہے اور نیکیاں اس کی فطرت کے لیے مرغوب اور پسندیدہ ہوجاتی ہیں۔ اب نیکی اسے بار معلوم نہیں ہوتی بلکہ اس سے اُسے قرار وسکون نصیب ہوتا ہے، اسی کیفیت کو رسول اللہ ؐ نے اس حدیث میں بیان فرمایا: ’’آپ ؐ سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے،آپ ؐ نے فرمایا: ’’جب تمہاری نیکی سے تمہیں روحانی سرور ملے اور تمہارا گناہ تمہیں برا لگے تو (درحقیقت) تم مومن ہو، صحابی نے عرض کی: یارسول اللہ! گناہ کیا ہے، آپ ؐ نے فرمایا: جو تمہارے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دو، (مسند احمد)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی مغفرت وعافیت کا سمندر تو اس سے بھی زیادہ جولانی کے ساتھ موجزن رہتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (میرے خاص بندے وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرتے ہیں جس کے ناحق قتل کرنے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا، قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہے گا، سوائے اس کے جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور (اس کے بعد) نیک اعمال انجام دیتا رہا، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے، (الفرقان: 68-70)‘‘۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت وشفقت پر دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ مائل بہ کرم ہوجائے تو گناہوں کی معافی اس کے کرم کے مقابلے میں معمولی بات ہے، وہ چاہے تو گناہوں کے بدلے میں نیکیاں بھی عطا فرمادیتا ہے اور اس مفہوم کی تائید میں احادیث موجود ہیں، یہاں اُن کے تفصیلی بیان کی گنجائش نہیں ہے۔
امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی نے توبہ کی قبولیت اور گناہ پر ندامت کی علامتیں یہ بیان کی ہیں: (۱) دل کا نرم ہوجانا اور ندامت کے سبب آنسو نکلنا، ایک روایت میں ہے: توبہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھو، کیونکہ وہ بہت زیادہ نرم دل ہوتے ہیں، (۲) توبہ کے سبب دل میں گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے، گناہ کی مثال زہر آلود شہد کی سی ہے کہ اس کا ذائقہ شیریں اور اثر المناک ہوتا ہے، چنانچہ جس نے ایک بار زہر آلود شہد کا اثر دیکھ لیا، وہ زہر سے پاک شہد سے بھی اجتناب کرتا ہے کہ ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔ (۳) گناہ پر ندامت مقبول توبہ کا درجہ اُس وقت پاتی ہے کہ یہ تاحیات رہے، اس کا اثر محض عارضی اور وقتی نہ ہو، (۴) گناہ کے اثرات کی تلافی نیک اعمال سے کرے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک نیکیاں گناہوں کے اثر کو زائل کردیتی ہیں، (ہود: 114)‘‘، نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے گناہوں کا ازالہ نیکیوں سے کرو اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو، (سنن ترمذی)‘‘، (۵) بعض اوقات پے در پے مشکلات کا آنا بھی گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ بندہ ان مشکلات پر جزع وفزع نہ کرے، اللہ تعالیٰ سے شکوہ وشکایت نہ کرے، بلکہ صابر وشاکر رہے، (۶) گناہِ کبیرہ کے ایک مرتکب پر جب حد نافذ کی جارہی تھی اور کسی نے اُسے حقارت سے دیکھا تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر پوری امت کے لیے تقسیم کردی جائے تو اُن کے لیے کافی ہے‘‘۔ امام جعفر صادقؓ سے سوال ہوا: ’’ہمیں کیسے معلوم ہو کہ ہماری نماز اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگئی‘‘، آپ نے فرمایا: ’’اس کی علامت قرآنِ کریم میں بیان کردی گئی ہے: ’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، (العنکبوت: 45)‘‘، سو اپنا جائزہ لے کر خود فیصلہ کرلو۔