کورونا، پرنالہ وہیں ہے

286

کورونا ایک سیلابِ بلا بن کر ملکوں ملکوں پھیلتا جا رہا ہے۔ طاقتور اور وسائل، ترقی کے کوہ ہمالیہ اس سیلاب کے آگے تنکوں کی طرح بہہ رہے ہیں۔ دنیا کا سب سے طاقتور ملک عاجز اور بے بس ہے۔ برطانیہ دنیا میں صحت کا بہترین نظام رکھنے والا ملک ہے مگر یہ سسٹم اپنے وزیر اعظم بورس جانسن کوکورونا سے بچا نہ پایا۔ بورس جانسن کئی روز سے انتہائی نگہداشت میں ہیں۔ ٹرمپ جو پہلے پہل اس وباء کو طنز واستہزا میں اُڑا رہے تھے اب اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ایک لاکھ تابوتوں کا آرڈر دے چکے ہیں۔ دولاکھ افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ تعداد ایک لاکھ تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے تو یہ ایک بڑی کامیابی تصور ہو گی۔ گویا کہ انہیں اس بات کی قوی امید ہے کہ امریکا میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوں گی۔ فرانس، اٹلی اسپین کے جدید سسٹم اور وسائل کو روندتا ہوا یہ وائرس دور تک پھیل چکا ہے۔ مغربی ملکوں کے پر رونق شہر ان شہروں کے پارکس، بازار ہوائی اڈے سب ویران ہو چکے ہیں۔ پالتو جانوروں کا جنون کی حد تک شوق رکھنے والے معاشرے میں اب اپنی اس محبت اور شوق سے بوجھ سمجھ کر جان چھڑائی جا رہی ہے۔ ویک اینڈ کو تہوار کے طور پر مناتے ہوئے گھروں سے نکل کر پارکوں، بارز اور شاپنگ مالز کا رخ کرنے والے ان سب چونچلوں کو تیاگ کر گھروں میں دبکے ہوئے ہیں۔ مغرب کی فضائیں جن آواز سے قطعی نا آشنا تھیں اب بہت سے شہروں اور پبلک مقامات پر فضائیں اور عوام کی سماعت اذانوں کی آوازوں سے آشنا ہو رہے ہیں۔ لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ مغربی ملکوں میں بہت سے نامور، متحرک اور بااثر پاکستانی نژاد بھی اس وباء کی زد میں آکر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ان میں کاروباری لوگ بھی ہیں منتخب ایوانوں کے نمائندے بھی اور ٹیکسی چلا کر اپنی گزر اوقات کرنے والے محنت کش بھی ہیں اور گھریلو خواتین بھی۔ آئے روز برطانیہ اور امریکا سے کسی جانی پہچانی شخصیت کے داعی ٔ اجل کو لبیک کہہ جانے کی اطلاع ملتی ہے۔
برطانیہ کے اخبار ڈیلی میل نے پاکستان کے تینتیس سالہ نوجوان کی دلدوز داستان لکھی ہے جو اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ لندن میں رہ رہا تھا اور ٹیکسی چلا کر زندگی کی گاڑی کو دھکا دے رہا تھا۔ ایوب اختر نامی نوجوان خوبرو اور صحت مند اور مستقبل کے خوابوں کی تعبیر کے لیے پرعزم تھا۔ یہ نوجوان اس وقت گردش دوراں کا شکار ہوا جب ایک عورت اس کی ٹیکسی میں سوار ہوئی اور وہ مسلسل کھانستی جا رہی تھی۔ ایوب اختر کورونا کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گیا۔ گھر والوں کو بستر مرگ سے اس کے پیغامات کچھ یوں ملتے رہے ’’میں شدید تکلیف میں میرے لیے دعا کیجیے‘‘۔ ایوب کے گھر والے موبائل پر اس کی کھانسی کو یاد کرکے آبدیدہ ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اہل خانہ کے اس کرب کو ان کے سوا اور کون سمجھ سکتا ہے اور اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایوب اختر کی صحت کو ایک ہفتے میں موذی وائرس نے تباہ کر کے رکھ دیا۔ ایوب اختر کے اہل خانہ نے’’ ڈیلی میل‘‘ کو بتایا کہ وہ گھر کی توسیع اور شادی کے لیے سخت محنت کر رہا تھا۔ یہ تو ایک کہانی ہے ایک اور کہانی برطانیہ کے شہر سلائو میں پاکستانی نژاد کونسلر خاتون شبنم صادق کی ہے۔ متحرک اور فعال خاتون کا تعلق کہوٹا کے نواحی علاقے سے تھا۔ تیرہ سال قبل اس خاتون نے بیک وقت چار بچوں کو جنم دیا اور جب ان چار ننھے بچوں کے ساتھ خاتون کی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں تو دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔ شبنم صادق اس موذی مرض کے ساتھ ایک شادی کی تقریب کے لیے پاکستان آئیں اور راولپنڈی میں جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ کورونا کا سیلاب گزر جائے تو نجانے اور کتنی دلدوز کہانیاں سننے اور پڑھنے کو ملیں گی۔
مغربی ملکوں میں بسنے والے پاکستانی دوہرے عذاب کا شکار ہیں ایک تو انہیں اپنی جانوں کا خوف لاحق ہے معاشی پریشانیوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف وہ اپنے آبائی ملک پاکستان میں عزیزو اقارب کی صحت وسلامتی کی فکر میں گھلے جارہے ہیں۔ پاکستان سے جانے والی یہ خبریں کہ یہاں عام لوگ ابھی تک کورونا کو مذاق سمجھ رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر سے بدستور گریزاں ہیں ان پاکستانی نژاد لوگوں کے دلوں پر چھریاں بن کر چل رہی ہیں۔ یہ ہر ممکن انداز سے اپنے ہم وطنوں کو سمجھا جارہے ہیں کہ خدارا اس آفت کو مذاق نہ سمجھیں وگرنہ پچھتاوا ان کا مقدر بن جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز خدا کا واسطہ دے کر اہل وطن سے احتیاط کرنے کو کہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس وباء کی دوا تیار نہیں ہوتی اس وقت خوف اور خطرے کی تلوار سروں پر لٹکتی رہے گی۔ چین نے ووہان میں جہاں سے یہ وائرس پھیلا تھا بہت جان جوکھم سے اس پر قابو پالیا ہے مگر حفاظتی تدابیر اب بھی جاری ہیں۔ ماسک کا استعمال، ملاقاتوں میں فاصلہ اب بھی جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ وبا پھر سر اُٹھا سکتی ہے۔ دنیا بھر کے سائنس دان اپنی اپنی لیبارٹریوں میں سر جوڑ کر بیٹھے ہیں مگر تاحال کامیابی کے کوئی آثار نہیں۔ ویکسین کی تیاری کب ہوگی کسی کو خبر نہیں۔ اس صورت حال میں حفاظت اور بچائو کی پہلی ذمے داری عوام پر عائد ہوتی ہے۔ عوام کو حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ابھی تک کورونا وائرس کا تعلق ٹریول ہسٹری سے نکلتا تھا مگر اب رفتہ رفتہ ایسے مریض سامنے آنے لگے ہیں جن کا وائرس ہوم گرون ہے۔ انہیں اپنی سوسائٹی ہی کے کسی فرد میں پوشیدہ وائرس نے بے خبری میں آن دبوچا ہے۔ حالت یہ ہے کہ معاشرے کے اندر وائرس دور تک پھیل چکا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ ٹیسٹنگ کی سہولت عام نہیں اس لیے متاثرہ افراد کی اصل تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا مگر اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ بحران کو ابھی مزید بڑھنا اور پھیلنا ہے اور کڑے دن آنا ابھی باقی ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت نے اس مرض کو سنجیدہ نہیں لیا۔ ایسے میں حکومت کے پاس سختی کے سوا کوئی چارہ نہیں جبکہ اس وقت تک دنیا میں سیلف آئسولیشن ہی کو اس وباء کے خلاف سب سے موثر اور جاندار ہتھیار سمجھا رہا ہے اور چین نے یہ ثابت بھی کیا ہے۔ چین کی کامیابی کے بعد اب دنیا اسی ماڈل کو اپنانے پر مجبور ہے۔ چینی ہمیں بھی اپنے تجربات کا نچوڑ بتانے آتے ہیں مگر ہم نے من حیث القوم کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہے۔ اس رویے پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔