کورونا وائرس سے نجات کب تک مل سکے گی

479

محمد سمیع گوہر
کورونا وائرس انفیکشن کی وبا کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے لاک ڈاون کا سلسلہ دنیا بھر میں جاری ہے جس کے بنا پر مصرف ترین کاروباری علاقے، مارکیٹیں اور شاپنگ مالز، بڑی بڑی شاہراہیں اور گلیاں ویران نظر آتی ہیں۔ سماجی فاصلوں کو کم کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عالمی آبادی کے ایک بہت بڑے حصہ کو کورونا وائرس منتقل ہونے کی بنا پر شرح اموات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے روزگاری، معاشرتی تنہائی اور وسیع پیمانے پر ہونے والے مالی نقصانات کے مقابلہ میں ہم ان اقدامات سے ہونے والے فوائد کو کس طرح وزن کریں گے؟۔ اس وقت دنیا کی نصف سے زائد آبادی یعنی چار ارب سے زائد افراد کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی بنا پر اپنی حکومتوں کی جانب سے اعلان کردہ لاک ڈائون کی پابندی پر مجبور ہیں۔ یہ لاک ڈائون کب تک چلنا چاہیے؟ جواب بالکل سیدھا سا ہے جب تک ہم اسے بھگا نہیں سکتے، لیکن یہ کب ممکن ہوگا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ جب تک ہمارے پاس اس سے بچائو کی ویکسین نہیں ہوگی یا کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوتا، اس ضمن میں کم از کم ایک سال بھی درکار ہوسکتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا اتنے لمبے عرصہ تک ہم سب کو لاک ڈاون پر انحصار کرنا پڑے گا جس نے معمولات زندگی کو یکسر تبدیل کردیا ہے اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا ایک ہولناک اقتصادی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے جس کا اندازہ چھ ٹریلن امریکی ڈالر یعنی چھ کھرب روپے لگایا جارہا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’ہم اس بیماری کو بیماری سے زیادہ خراب نہیں ہونے دے سکتے ہیں‘‘۔ لاک ڈاون کے نتیجے میں ہم کورونا وائرس کی بیماری سے ہونے والی شرح اموات کو کم تو کرسکتے ہیں نیز دیگر منتقل ہونے والی بیماریوں سے بھی لیکن اس کے بھی حقیقی معاشی اثرات ہیں جن میں معاشرتی تنہائی، بے روزگاری اور اقتصادی دیوالیہ پن جن کے ابھی تک پورے اثرات سامنے نہیں آسکے ہیں مگر جلد سامنے بھی آسکتے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس وقت تجارت دنیا بھر میں عملی طور پر بند ہوچکی ہے کیونکہ زندگی اور معیشت کو بچانے کے لیے لاک ڈائون کا عمل بہتر ہے، اگر ہم کووڈ 2019 کو ختم کرنے سے قبل لاک ڈائون ختم بھی کردیتے ہیں تو کچھ لوگ اس بنا پر مرجائیں گے جو دوسری صورت میں زندہ رہتے اس لیے جان بچانے اور معیشت بچانے کے مابین کاروباری سرگرمیوں سے بچنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ یہ کہنا بظاہر محفوظ ہے کہ لاک ڈائون ختم کرنے کا وقت اس سال یا اگلے سال کے درمیان کسی وقت ہے لیکن یہ بھی زیادہ مددگار نہیں ہے، اگر ہم اس سے زیادہ مناسب جواب چاہتے ہیں تو ہمیں کاروباری سرگرمیوں کی بحالی کے لیے بہت سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ کیسے ممکن ہوگا؟۔ سب سے پہلے ہمیں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ممکنہ اخراجات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ماہرین نفسیات نے ہماری ایک اخلاقی کمزوری کی نشاندہی کی ہے جس کے مطابق ہم کسی مخصوص فرد کی امداد کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم بلا کسی امتیاز کے زیادہ سے زیادہ مریضوں کی بے لوث مدد کریں، بحیثیت ایک انسان ہمیں جتنا ممکن ہوسکے زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرنا چاہیے اور یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس کو زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تجارتی سرگرمیوں کو معطل کرنے کے مختلف نتائج کو قدر کی ایک اکائی میں تبدیل کرنا ضروری ہے۔ موجودہ سوچ بچار کے دوران ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کیا ہم کو انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے اپنی معیشت کا گلا گھونٹ دینا چاہیے یا یہ کہ ہم اپنی جی ڈی پی کا زندگی بچانے کے عمل کے ساتھ موازنہ کرسکتے ہیں ہم کو انہیں کسی ایک مشترکہ یونٹ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پیش رفت کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس بات پر غورکیا جائے کہ اگر لاک ڈائون کی مدت طویل ہوسکتی ہے تو کیا ملکی معیشت ڈاکٹروں، نرسوں اور ادویات و آلات خریدنے کے اخراجات کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لاک ڈائون کا معاشی نظام پر کتنا اثر پڑسکتا ہے اور اس بات کا جائزہ لیں کہ بعد میں ملکی معیشت کے آئندہ کتنے سال تک ان اخراجات کا بوجھ برداشت کرنے پر مجبور ہوںگے یہ بات بڑی اہم ہے۔
کورونا وائرس انفیکشن کے سبب دنیا بھر میں جو ہولناک تباہی و بربادی سامنے آرہی ہیں ان میں صرف امریکا میں صرف دو ہفتوں کے دوران ایک کروڑ افراد بے روزگار کردیے گئے، بھارت میں لاکھوں تارکین وطن مزدور تباہ و برباد ہوگئے ہیں جن کے پاس روزگار کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے۔ بے روزگاری کی خبریں دنیا بھر میں ایک ڈراونا خواب بن گئی ہیں جو ہمیں ایک صحت مند زندگی کی قیمت پر برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ فلاح انسانیت کے لیے براہ راست سوچنے پر ہم اس امر کا موازنہ کرنے پر مجبور ہیں کہ بے روزگاری فلاح انسانی پر خطرناک اثرات مرتب کررہی ہے۔ حاصل شدہ معلومات سے ہم لاک ڈائون کے انسانی نقصانات کا موازنہ زندگی کو بڑھا کر حاصل ہونے والی بھلائی سے کرسکتے ہیں۔ ایک وسیع تر تجزیے میں دوسرے اثرات بھی شامل ہیںجیسے معاشرتی تنہائی اور اضطراب، یہ بھی معلوم نہیں کہ لاک ڈائون کب ختم ہوسکے گا؟۔
کووڈ 2019 ابھی کچھ عرصہ اور ہمارے ساتھ رہے گا، کیا حکومتوں کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈائون مزید کچھ اور مہینوں جاری رکھنے والے پالیسی درست ہوگی یہ ہم نہیں جانتے ہیں، اخلاقی فلسفہ کی حیثیت سے ہم خود بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے ہیں۔ تحقیق کاروں کو اثر انداز کرنے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ دولت اور صحت کا تقابل کیا جائے اور نہ ہی دولت اور صحت کے لحاظ سے۔ ہمیں انسانی جانیں زیادہ عزیز ہیں یا معیشت اس ضمن میں ہمیں ٹھوس فیصلے کرنے ہوںگے۔ معاشی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے لاک ڈائون ختم کرنے کا فیصلہ کربھی لیا جائے اور کورونا وائرس کے مریضوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو کیا یہ حکومتی فیصلہ قابل تعریف ثابت ہوسکے گا اس کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو اس حقیقت کی بھی سمجھنا چاہیے کہ جب کوئی بھی شہری اپنے تمام حقوق ریاست کے حوالہ کردیتا ہے تو ریاست کی بھی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو روزگار، تعلیم، سماجی انصاف اور علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کرے اس لیے معاشی مفادات سے قطع نظر حکومت کے لیے صحت عامہ کا خیال رکھنا زیادہ ضروری ہے۔