وسائل کا غلط استعمال

313

ایک جانب ملک کے عوام کورونا کی وبا اور اس سے زیادہ اس کے پروپیگنڈے سے نبرد آزما ہیں تو دوسری طرف خدشات کے عین مطابق حکمران کورونا سے نمٹنے کے نام پر حاصل شدہ فنڈز کو ٹھکانے لگانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے وزیراعظم کی مصروفیات سے عوام کو آگاہ رکھنے کے لیے یو ٹیوب چینل قائم کردیا ہے۔ اس چینل کے ذریعے وزیراعظم عوام تک رسائی حاصل کریں گے اور ان کا پیغام عوام تک پہنچایا جائے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب تک وزیراعظم کی رسائی عوام تک تھی ہی نہیں۔ اسی طرح حکومت کی اعلان کردہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس میں رضا کاروں کی تعداد دس لاکھ سے متجاوز ہونے کی خبر بھی آگئی ہے۔ ٹائیگر فورس کی رجسٹریشن، اس کے رضا کاروں کے لیے فنڈز کی فراہمی اور ان کے ممکنہ کاموں کی تشہیر بھی یقیناً اس یو ٹیوب چینل کے ذریعے ہی کی جائے گی۔ دونوں کاموں کے لیے باقاعدہ سیکرٹریٹ عملے اور فنڈز کی ضرورت ہوگی اور ہے۔ چنانچہ یہ سب استعمال ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسے حالات میں عدالت عظمیٰ یہ تبصرہ کر رہی ہے کہ وفاق اور سندھ کی حکومتیں ایک دوسرے سے الجھ رہی ہیں تو یہ تبصرہ درست ہی ہوگا۔ دوسری طرف حکومتی حلقوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے خلاف مہم شروع ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اور ججوں کے بارے میں نازیبا زبان کا استعمال بھی کیا گیا۔ بظاہر وزیراعظم نے اس کا نوٹس لیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈہ کون کر رہا تھا۔ اس سے فائدہ کس کو تھا اور عدالت کے ریمارکس اور ازخود نوٹس سے کس کو تکلیف تھی۔ ظاہری بات ہے کہ حکومت کے پاس موجود وسائل اس کی سوشل میڈیا ٹیم وغیرہ کسی نہ کسی کام میں تو سرگرم رہی ہوگی۔ عدالت عظمیٰ نے تو ڈاکٹر ظفر مرزا کے غیر سنجیدہ رویے کی بھی گرفت کی ہے جس پر عمران خان بھی برہم ہوئے ہیں اور سخت نوٹس لیا ہے۔ لیکن ان کے سخت نوٹس کا نتیجہ پہلے بھی کچھ زیادہ نہیں نکلا تھا۔ بس وزرا کے قلمدان تبدیل کر دیے گئے۔سرکاری وسائل کے غلط استعمال کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت وفاقی کابینہ میں وفاقی وزیر اور وزرائے مملکت کے مساوی اختیارات استعمال کرنے والے 14 غیر منتخب مشیر اور معاونین خصوصی موجود ہیں۔ ان کے تقرر کو عدالت میں چیلنج بھی کیا جاچکا ہے۔ یقینا ان پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہوں گے۔ جس یو ٹیوب چینل کو وزیراعظم کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا ہے کیا وزیراعظم اور مرکزی حکومت اس کا جواز دے سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے لیے پی ٹی وی، تمام ہی نجی ٹی وی اور درجنوں اخبارات پہلے ہی حاضر ہیں۔ اکا دکا کے سوا سب وزیراعظم کا پیغام بڑے اہتمام سے عوام تک پہنچاتے ہیں۔ ایک اور یو ٹیوب چینل کا مطلب ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا کے نام پر ملنے والے فنڈز کو ٹھکانے لگانا اور آنے والے بلدیاتی اور اس کے بعد کے مرکزی و صوبائی انتخابات کے لیے فضا ساز گار بنانا ہے۔ اسی طرح کورونا ریلیف ٹاییگر فورس کے لیے مسلسل رضا کاروں کی بھرتی اور رجسٹریشن کیوں جاری ہے۔ اب تک تو لوگوں میں امدادی سامان تقسیم اور ان کی دیکھ بھال کا کام ہو جانا چاہیے تھا۔ اس رجسٹریشن اور فورس کا معاملہ بھی مشتبہ ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے ہر مکتبِ فکر کے لوگوں نے اعتراض کیا ہے لیکن حکومت اور خصوصاً وزیراعظم عمران خان اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت کورونا کے متاثرین کی مدد کرنا چاہتی ہے تو اس کے پاس حکومتی مشینری بلدیات ان کے کونسلرز اور بلدیات کے پاس موجود اعداد و شمار پہلے ہی ہیں۔ اگر ان کی مدد کرنی ہے تو اپنی اس مشینری کو استعمال کریں۔ نت نئی فورسز تشکیل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں واحد سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے جس نے اپنی پوری مشینری اور افرادی قوت کو کورونا ریلیف میں لگا دیا ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے روزگار سے محروم لوگوں کی مدد اور ان تک راشن، دوائیں، لباس وغیرہ پہنچایا جا رہا ہے۔ اب تک جماعت اسلامی ایک ارب روپے سے زیادہ کا امدادی سامان متاثرین تک پہنچا چکی ہے جبکہ حفاظتی کٹس بھی ڈاکٹروں کو پہنچائی جا رہی ہیں۔ حکومت کو تو ساری دُنیا سے فنڈز مل رہے ہیں اور اپنے وسائل بھی اس کے پاس ہیں۔ اگر جماعت اسلامی والا جذبہ اختیار کیا جائے تو پاکستان میں کورونا سے معاشی تباہی کے اثرات جلد دور کرنا آسان ہو جائے گا۔ لیکن حکمرانوںکی آدھی ٹیم سندھ سے اور سندھ کے وزرا کی آدھی ٹیم مرکزی حکومت سے لڑنے میں مصروف ہے۔ کورونا سے کون لڑے گا۔