استقبال رمضان

220

آصف اقبال

کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوش گوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔ فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ اْمتِ مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانے پر خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے۔ ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت،خیر خواہی، خدمتِ خلق، راہ خدا میں استقامت، جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد، اللہ اور رسولؐ سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اْس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی، شبِ قدر رکھی گئی، فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے تینوں عشروں کو مخصوص اہمیت دی گئی، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ، انفاق اور فطرانے کا اہتمام کیا گیا۔ نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ ضروری ہے کہ ہم اِس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو، ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسوکر لیں۔
رمضان المبارک: تین اہم واقعات
رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یکسر تبدیل کردی۔ یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائی جانے والی حکمت عملی، لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے کے نتیجے میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارٔ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امتِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہم کنار ہو۔ لہٰذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔
٭نزولِ قرآن:
واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیاتِ انسانی کو جِلا بخشی اور دنیا کو تاریکی، گمراہی اور شرک کی جڑوں سے نجات دلائی۔ لہٰذا ہماری ذمے داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔ اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔ اس کے قیام کی سعی وجہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔
٭غزوۂ بدر:
یہ واقعہ اْس حق وباطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علَم بردار اِس سعی وجہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں، جو اس نے عطا کی ہیں۔ اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعے خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہییں۔ اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعے جہالت، گمراہی اور باطل نظریہ ہاے افکار سے چھٹکارا پایا اور دلایا جانا چاہیے۔ اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعے نظامِ باطل کو زیر کیا جاسکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔ لیکن اس آخری انتہا سے قبل لاز م ہے کہ وہ کام انجام دیے جائیں جن کا آغاز ہر شخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اْسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضا ہو، فی الوقت اس کی ضرورت وطنِ عزیز میں محسوس نہیں ہوتی۔
٭فتح مکہ، فتح مبین:
یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علَم بردار دنیا میں بھی سرخ رْو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کرلیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔ یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے، لہٰذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں، اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں، اور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں۔ ان کی گردن غرور و تکبر کے محرکات سے اکڑے نہیں بلکہ مزید وہ اللہ کے آگے جھک جانے والی بن جائے۔ فائدہ یہ ہوگا کہ اْن میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہِ قرآن کے استقبال، اس سے استفادے اور اس کے بعد کے ایام میں ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ تبدیلیاں پیدا کر لینی چاہییں جن کے نتیجے میں اللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔
یکسو ہو جائیے!
آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا وتحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔ علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی، صنعت و حرفت میں پیش قدمی، سائنس و ٹکنالوجی میں دریافتیں، چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں۔ ہم دینی مدارس کھولتے ہیں، کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں، فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟؟ حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دْور ہوتا جا رہا ہے، اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور میسر آجائیں۔ لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔ پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو انھی بنیادوں پر قائم رہے، مگر اخلاق، معاشرت، معیشت، نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام، زندگی کی بنیادی خرابیوں کا آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔ وہ کامل پروگرام کیا ہے؟ اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟ اس موقع پر ہم یہ بتاتے چلیں کہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اَب تک ہمارا نظامِ حیات بنا ہوا ہے، زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی!