مفتی محمد عبداللہ قاسمی
رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کو یقینی بنانے اور باہمی الفت ومحبت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ان پرمال خرچ کرے، وہ غریب، تنگ دست اور محتاج ہوں تو ان کی مالی اعانت کرے، اس سے بھی تعلقات میں پائیداری آتی ہے اور دلوں میں محبت بڑھتی ہے، رشتے داروں پرخرچ کرنے اور ان کی مالی اعانت کرنے کی خود آپؐ نے امت کو ترغیب دی ہے، آپؐ کا ارشادگرامی ہے: رشتے داروں پر خرچ کرنا دوھرے اجر وثواب کا حامل ہے، ایک اسے صدقے کا ثواب ملتا ہے دوسرے صلہ رحمی کا۔ (الحدیث) روایتوں میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے۔
(آل عمران:92)
صحابہ کرام… جو نیکیوں کے حریص، رضائے مولی کے طالب اور اعمال ِ صالحہ کی طرف سبقت کرنے والے تھے… نے اپنی محبوب اور پسندیدہ چیزوں کا جائزہ لیا اور بارگاہِ نبوی میں اس کو پیش کیا، سیدنا ابوطلحہؓ آپؐ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: مجھے بیرحاء نامی کنواں بہت زیادہ محبوب اور پسند ہے، میں اس کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں، آپؐ نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردو، ابوطلحہؓ راضی ہوجاتے ہیں اور اس کو اپنے رشتے داروں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ (بخاری)
یہ ایک واقعہ ہے کہ عام طور پر رشتے دار احسان فراموش ہوتے ہیں، آپ لاکھ بھلائی کرلیں پھر بھی وہ آپ کے ممنون اور احسان مند نہیں ہوں گے اورآپ کے حوالے سے ان کی زبانوں پر کوئی نہ کوئی شکایت ضرور رہے گی۔ اس کے برخلاف آپ کسی اجنبی پر معمولی سا احسان کردیں اوراس کی ایک ادنی سی ضرورت بھی پوری کردیں تو آپ کا یہ چھوٹا سا رویہ وہ زندگی بھر یاد رکھتا ہے اور عمر بھر آپ کا ممنون اور احسان مند ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے عام معمول یہ ہے کہ انسان رشتے داروں پرمال خرچ کرنے اور ان کا تعاون کرنے کے بجائے اجنبی اور دور کے لوگوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اعزا واقارب کا تعاون کرکے اس کا دل اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا کہ ایک غریب اجنبی کی مالی اعانت کرکے وہ فرحت وشادمانی محسوس کرتا ہے۔
انسان کو یہ پیش ِنظر رکھنا چاہیے کہ اللہ جل شانہ‘ جس نے مجھے مال ودولت سے نوازا ہے اور بہت سی دنیوی نعمتوں سے سرفرازکیا ہے‘ کی مرضی اور اس کا منشا یہ ہے کہ میں مال رشتے داروں پر خرچ کروں اور ان کی مالی اعانت کروں۔ اگرچہ مجھے اس کی وجہ سے رشتے داروں کی جانب سے کڑوی اورکسیلی باتیں ہی کیوں نہ سننی پڑیں، ان کی جانب سے بارہا احسان فراموشی کا ہی کیوں نہ ثبوت دیا جائے، کیوں کہ غریب اور حاجت مند رشتے داروں کے مالی تعاون سے مجھے داد وتحسین کے وہ کھوکھلے کلمات نہیں چاہیے، جس سے میرے اندرکسی قسم کا عجب اور کبر پیدا ہو، مجھے وہ تعریف وتوصیف منظور نہیں جس سے میرے دل میں نام ونمود اور ریاکاری کا غیر صالح جذبہ پیدا ہو، مجھے تو وہ اجر وثواب چاہیے جو اللہ نے میرے لیے آخرت میں تیارکر رکھا ہے، میں تو اس عزت وتکریم کا طالب ہوں جس سے ان شا اللہ قیامت کے دن مجھے سرفرازکیا جائے گا۔
یہ صالح فکر اگر انسان کے دل میں پیدا ہوجائے تو پھران شا اللہ رشتے داروں پرخرچ کرنے سے اس کے دل میں کسی قسم کی گرانی محسوس نہیں ہوگی اور ان کی جانب سے ناقدری اور احسان فراموشی کو برداشت کرنا اس کے لیے آسان اور سہل ہوجائے گا، ان کی تلخ اور کڑوی باتوں کو عسل مصفی سمجھ کر پینے میں کوئی دشواری اسے محسوس نہیں ہوگی۔
اقربا سے میل جول رکھیں
اور ایک چیز جس سے باہمی تعلقات میں مضبوطی اور استحکام آتا ہے وہ یہ ہے کہ وقتا فوقتا رشتے داروں سے ملاقات کریں، ان کی خیرخیریت دریافت کریں، اگر رشتے دار دور رہتے ہیں تب بھی باقاعدہ وقت فارغ کرکے ان سے ملاقات کرنے کے لیے جانے کا اہتمام کریں۔ خود آپؐ رشتے داروں سے میل جول رکھنے اور ان سے ملاقات کرنے کا خاص اہتمام فرماتے تھے، جب آپؐ سفر سے تشریف لاتے تو مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کرتے اور بی بی فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور ان سے خیر وعافیت دریافت کرتے، آج کے دور میں صنعتی انقلاب اور جدید سائنسی ایجادات نے پورے عالم کو ایک گاؤں کی شکل میں تبدیل کر دیا ہے اور دنیا کے سارے فاصلے سمٹ چکے ہیں، سماجی روابط بہت آسان ہوچکے ہیں، پچھلے زمانے کی بنسبت موجودہ زمانے میں فون اور واٹس ایپ کے ذریعے سے رشتے داروں سے ربط رکھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اس پہلو پر خاص توجہ دیں، ہمارایہ عمل ان شاء اللہ دنیوی واخروی سعادت کا ضامن ہوگا۔
اقرباء کو دعوت میں بلائیں
اقرباء کے ساتھ صلہ رحمی اور محبت وخیرخواہی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ انہیں دعوت میں مدعوکریں، خوشی ومسرت کے موقع پر انہیں یاد رکھیں، بالخصوص شادی اور ولیمے کی تقریب میں انہیں بلائیں اور ان کی خاطر مدارات کریں، اس سے بھی دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے اور تعلقات مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں، آپؐ اور صحابہ کرامؓ سے بھی ثابت ہے کہ وہ دعوت میں اپنے رشتے داروں کو خاص طور سے بلاتے تھے اور ان کو اپنی خوشی میں شریک کرتے تھے۔ آپؐ کو جب خلعت ِنبوت سے سرفراز کیا گیا تو آپؐ نے اپنے اعزا واقارب کو دعوت ِدین کے لیے ان کوکھانا کھلانے کا اہتمام کیا، اس کے بعد آپؐ نے دعوت ِتوحید کو پیش فرمایا۔