ہیموفیلیا کا مرض بچوں کی نفسیات پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے.ڈاکٹر ثاقب انصاری

443

17اپریل :ہیمو فیلیا کا عالمی دن

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ بیس ہزار بچّے اس مرض کا شکار ہیں۔ صرف کراچی ہی میں تین ہزار بچّے مرض سے متاثر ہیں،مگرالم ناک صُورت ِحال یہ ہے کہ مُلک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سےمتاثرہ بچّوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ورکشاپ سے خطاب

معروف ہیماٹالوجسٹ ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا ہے کہ ہیمو فیلیا کا مرض بچوں کی نفسیات پر بھی اثرات مرتّب کرتاہے۔ اس کے نتیجے میں بچّہ بے چینی، پژمردگی (ڈیپریشن)،کسی کام کو بار بار دہرانے کی نفسیاتی بیماری(Obsessive-Compulsive Disorder)، احساس کم تری کا شکار ہوسکتا ہے۔یوں ہیموفیلیا کے علاج کے ساتھ ادویہ پر بھی انحصار بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں دیگر مُمالک کے برعکس ہیموفیلیا کے مریضوں کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےکہ قومی سطح پر اس مرض سے متاثرہ مریضوں کے لیے کسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہیموفیلیا کی روک تھام کے لیے حکومت ترجیحی بنیادوں پر مریضوں کو مطلوبہ فیکٹر زمہیا کرنے کے ٹھوس قدامات کرے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ بیس ہزار بچّے اس مرض کا شکار ہیں۔ صرف کراچی ہی میں تین ہزار بچّے مرض سے متاثر ہیں،مگرالم ناک صُورت ِحال یہ ہے کہ مُلک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سےمتاثرہ بچّوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔

۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہیمو فیلیا کے عالمی دن پر انہوں نے عمیر ثناء فائونڈیشن میں منعقدورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا.واضح رہے کہ  دنیا بھر میں17 اپریل کو ہیمو فیلیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے.ڈاکٹر ثاقب انصاری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جسے عام اصطلاح میں خون بہنے کی بیماری کہاجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم میں موجودخون جمانے والے ذرّات میں اس حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے کہ اگرکوئی چوٹ یا زخم لگ جائے ،تو خون رُکنے یا جمنے میں کافی وقت لگتا ہے اور زیادہ خون بہہ جانےکے نتیجے میں موت کے امکانات بڑھ جاتےہیں ۔ بیماری کی شدّت میں کسی حادثے کے بغیر بھی مریض کے جسم سے خون خارج ہوسکتا ہے۔اصل میں خون ،پروٹین، سُرخ و سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس کے مجموعے کا نام ہے۔ جب کسی عام صحت مند فرد کو چوٹ لگتی ہے، تو قدرتی طور پرایک خاص وقت تک خون بہنے کے بعد اس پر خود بخود ایک جھلّی سی بن جاتی ہے، جوخون روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس جھلّی کو طبّی اصطلاح میں’’کلاٹ ‘‘ کہتے ہیں،لیکن اگر جھلّی بنانے والے پروٹین (فیکٹر) کی جین متاثر ہو جائے، تو پروٹین بننے کا عمل رُک جاتا ہے اور خون جم نہیں پاتا ۔اور یہی عمل ہیموفیلیا کا سبب بن جاتاہے۔ یہ ایک موروثی مرض بھی ہے، جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہو سکتاہے۔ دُنیا بَھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے ،لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے 75فی صدافراد میں اس کی تشخیص نہیں ہوپاتی یا وہ ناکافی علاج کروا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں سِرے سےعلاج کی سہولت ہی میسّر نہیں ہوتی۔

ہیمو فیلیا کی تین اقسام ہیں ۔ہیموفیلیا اے، بی اور ریئرفیکٹر ڈیفیشنسیز (Rare Factor Deficiencies) ۔ ان میں سب سے عام ہیموفیلیا اےہے کہ ہر پانچ ہزار نوزائیدہ بچّوں میں سے ایک بچّہ ہیموفیلیااے کا شکار ہوتا ہے۔ اس قسم میں فیکٹر 8کی کمی ہوتی ہے۔اصل  میں خون رُکنے یا جمنے کے عمل میں 12اجزاء حصّہ لیتے ہیں، جنہیں کلاٹنگ فیکٹرز (خون جمانے والے عناصر) کا نام دیاگیا ہے۔ اگر ان 12فیکٹرز میں سے کوئی ایک بھی کم ہوجائے، تو خون جمنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔ہیموفیلیا بی میں فیکٹر9،جب کہ ریئرفیکٹر ڈیفیشنسی میں ایک تا بارہ مختلف فیکٹرزکی کمی واقع ہوجاتی ہے۔واضح رہے کہ ایک عام صحت مند فرد میں کلاٹنگ فیکٹرز کی نارمل مقدار50تا 200انٹرنیشنل یونٹ ہوتی ہے۔ہیمو فیلیا کی شدّت کے اعتبار سے درجہ بندی کی گئی ہے، جس کے مطابق پہلا درجہ مائلڈ ہیموفیلیا (Mild Hemophillia) ہے، جس میں کلاٹنگ فیکٹرز کی تعداد5فی صد سے زائد پائی جاتی ہے۔دوسرے درجے،معتدل ہیموفیلیا (Moderate Hemophillia) میں فیکٹرز کی تعداد ایک سے 5فی صد اورشدید ہیموفیلیا (Severe Hemophillia)میں کلاٹنگ فیکٹرز کی مقدار ایک فی صد سے بھی کم پائی جاتی ہے۔عمومی طور پر مرض کی ابتدائی تشخیص اُسی وقت ہوجاتی ہے، جب پیدایش کے وقت نومولود کی ناف کاٹنے یا ختنے کے بعد خون کافی دیر تک بہتا رہتا ہے۔علاوہ ازیں بچّے کی ناک سے مسلسل خون کا بہنا،پیشاب میں خون کا اخراج،مسوڑھوں سے خون رِسنااور جوڑوں میں سوجن اس مرض کی ممکنہ علامات ہو سکتی ہیں۔ عموماً ہیموٹولوجسٹس سےشدید ہیموفیلیا سے متاثرہ مریض ہی رجوع کرتے ہیں،موڈریٹ اور مائلڈ ہیموفیلیا والوں کو علاج کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے، جب ان کی کوئی سرجری ہو،کوئی حادثہ پیش آجائے یا پھر چوٹ وغیرہ لگ جائے۔مائلڈ اور موڈریٹ ہیمو فیلیا والوں کی زندگی قدرے بہتر ہوتی ہے،لیکن اس مرض کا ایسا کوئی مستقل علاج نہیں ،جس کے نتیجے میں مکمل طور پر شفا مل سکے۔ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ مرض میں مبتلا والدین کا علاج کر دیا جائے ،تو ان کے بچّوں میں مرض منتقل نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ دُنیا بھَر میں ہیمو فیلیا کے مریضوں کو اڑتالیس گھنٹے کے فرق سے تین بار فیکٹر8یا9 بذریعہ انجیکشن لگایا جاتا ہے۔یہ وہ فیکٹرز ہیں،جومریض کے خون میں قدرتی طور پر نہیں پائےجاتے۔ مگر چوں کہ یہ فیکٹر انجیکشن بہت زیادہ منہگے ہوتےہیں اور پاکستان میں دستیاب بھی نہیں ،چناں چہ ہمارے یہاں مریضوں کوفریش فروزن پلازما (FFP: Fresh Frozen Plasma) یا منجمد پلازما دیا جاتا ہے، یعنی صاف اور صحت مند خون کا بروقت انتقال۔ صحت مند خون سے خون کے خلیے اورپلیٹ لیٹس نکالنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے، وہی فریش فروزن پلازما کہلاتاہے۔ویسے توبہترین صُورت یہی ہے کہ ہیمو فیلیا کے مریضوں کے جسم میں صرف خون جمانے والے وہی فیکٹرز داخل کیے جائیں، جن کی جسم میں کمی ہو۔بہرحال ،ایف ایف پی کا طریقۂ علاج بھی مؤثر ہے ،لیکن اس بات کا اندیشہ ہی رہتا ہےکہ خون اور پلازما محفوظ بھی ہیں یانہیں ۔ اگر محفوظ انتقالِ خون نہ ہو، تو ہیمو فیلیا کے مریض ہیپاٹائٹس بی ،سی اور ایچ آئی وی سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں ہیمو فیلیا ہی کی طرح کی ایک اور بیماری von Willebrand Disease بھی عام ہے ۔ اس مرض میں بھی خون جمنے کا عمل متاثر ہوجاتا ہے اوریہ بھی موروثی طور پر منتقل ہو تی ہے ،مگر چوں کہ پاکستان میں اس کے ٹیسٹ کی سہولت میسر نہیں ،لہٰذا اس کا بھی ہیموفیلیا کہہ کرعلاج کر دیا جاتا ہے،حالاں کہ اس بیماری کے اپنے فیکٹرز ہیں ،جو اس بیماری میں لگائے جاتے ہیں۔