آئی ایم ایف سے ریلیف، بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں

407

آئی ایم ایف نے پاکستان کو ریلیف دیتے ہوئے قرضوں کی وصولی ایک سال تک موخر کردی جبکہ آئی ایم ایف نے ایک اعشایہ چار ارب ڈالر کا نیا قرضہ بھی منظور کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید کمی کرکے 9 فیصد کردی۔ اس اعلان اور نئے قرض کی منظوری پر حکمرانوں نے حسب روایت بغلیں بجانا شروع کردیں۔ لیکن یہ ریلیف عالمی سطح پر کورونا کی وجہ سے معیشتوں کو پہنچنے والے نقصان سے بچانے کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے، پاکستان جیسے ملک کی معیشت اس قدر مضبوط نہیں ہے کہ اس قسم کے ریلیف کے نتیجے میں مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔ نہ ہی ہمارے حکمران اس قسم کی پالیسیاں بناتے ہیں کہ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہو بلکہ الٹا تاجروں اور صنعتکاروں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ جہاں تک قرضوں کی وصولیابی ایک سال تک موخر کرنے کا تعلق ہے تو اس کا مطلب قرض معافی نہیں ہے بلکہ ایک سال کے بعد موجودہ قرض اور نئے قرضوں کی واپسی بھی سر پر ہوگی کیا اس وقت کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ بھاری ادائیگیاں کی جا سکیں۔ ظاہر ہے ایسا نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے جو تاجروں کے پے در پے مطالبات کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ قرض ملنے اور وصولیابی موخر ہونے کی خبر سنتے ہی شرح سود میں کمی کردی۔جبکہ پاکستانی تاجر مہینوں سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ اسٹیٹ بینک شرح سود کم کرے۔ امریکا جیسے ملک میں شرح سود نہ ہونے کے برابر کر دی گئی ہے لیکن مدینے کی ریاست کا دعویٰ کرنے والے عمران خان نیازی کے منتخب کردہ گورنر اسٹیٹ بینک شرح سود مزید کم کرنے میں اس قدر لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔ یہ کمی کوئی کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ شرح ہے جو عمران خان کی حکومت آنے کے وقت یعنی نواز شریف کی حکومت کے آخری دور میں تھی۔ اس کمی کا بھی یہ اثر آیا ہے کہ پاکستان اسٹاک میں 16 ماہ کی مدت کی ریکارڈ تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس وقت عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت 20 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے لیکن ہمارے حکمران اس کا فائدہ بھی خود اٹھا رہے ہیں۔ عوام کو ریلیف نہیں دے رہے۔ یہ قرض ملنے کو اپنی کامیابی اور بڑی خوش خبری قرار دیتے ہیں۔ ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ قرض کی رقم سے جو کام کرنے ہوتے ہیں وہ نہیں کیے جاتے بلکہ اس رقم کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ یہ کام صرف پی ٹی آئی کے لیے مخصوص نہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن اورق بھی اس کام میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔