کورونا اور رمضان المبارک

692

اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جو ممالک زیادہ ترقی یافتہ سمجھے جاتے تھے وہ اس وبا سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ امریکا ہی کو لیجیے وہ خود کو سپر پاور سمجھتا تھا اور پوری دنیا کو اپنے ورلڈ آرڈر پر چلانا چاہتا تھا لیکن ایک حقیر سے جرثومے کے آگے بے بس ہوگیا ہے۔ ساری اکڑ فوں نکل گئی ہے۔ اس کا صدر اپنی عاجزی کا اظہار کررہا ہے۔ وہاں ہر روز ہزاروں افراد موت کے منہ میں جارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ یہ وبا لاکھوں زندگیوں کا خراج لے کر ٹلے گی۔ پاکستان میں بھی کورونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ہلاکتیں بھی بڑھ رہی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کی صورت حال امریکا اور یورپ سے کہیں بہتر ہے۔ البتہ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت آنے والے دنوں میں کورونا وائرس کا ہدف ہوسکتے ہیں جس سے ان دونوں ملکوں میں بہت تباہی پھیلے گی لیکن یہ محض خوف پھیلانے کی کوشش ہے ورنہ ماہرین طب کی رائے ہے کہ گرمی کی شدت میں جوں جوں اضافہ ہوگا یہ وائرس بھی ختم ہوتا چلا جائے گا۔ گرمی اس کے لیے موت کا پیغام ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔
کورونا کے اس ہنگامے میں رمضان المبارک بھی آیا ہی چاہتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ چوبیس اپریل کو رمضان کا چاند نظر آجائے گا اور اگلے دن پہلا روزہ ہوگا۔ پاکستان کے علاوہ تمام مسلمان ملکوں میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم ایک دن کی تقدیم و تاخیر سے یہ ماہِ مبارک سایہ فگن ہوجائے گا۔ اس مہینے کو نیکیوں کا موسم بہار قرار دیا جاتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔ نبی پاکؐ کا یہ فرمان کسی خاص زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے ہر زمانے کے لیے ہے۔ جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں اس پر بھی نبی کریمؐ کا یہ فرمان صادق آتا ہے، بلاشبہ ہم اس وقت کورونا جیسی مہلک وبا کے حصار میں ہیں جو تیزی سے زندگیوں کو نگل رہا ہے لیکن ماہِ رمضان المبارک کی آمد نے ہمارے دلوں پر سکون کی کیفیت طاری کردی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ رحمت اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ یہ رجوع الی اللہ کا مہینہ ہے۔ ہم جو سارا سال خواب غفلت میں پڑے رہتے ہیں، اس مہینے کا چاند طلوع ہوتے ہی نیند سے جاگتے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔ عبادات میں روزہ، نماز، تلاوت، تسبیحات، تراویح اور شب بیداری شامل ہیں۔ جو لوگ نہیں پڑھتے یا محض جمعے کے جمعے ماتھا ٹیکتے ہیں وہ رمضان کا مہینہ آتے ہی اپنے بدن سے غفلت کا چولا اُتار پھینکتے ہیں اور روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ پکے نمازی بن جاتے ہیں۔ وہ پانچوں نمازیں اور تراویح باجماعت ادا کرتے ہیں۔ نماز تو خیر گھر میں بھی ادا کی جاسکتی ہے لیکن باجماعت نماز کا تصور مسجد کے بغیر ممکن نہیں۔ کورونا وائرس کی زد سب سے پہلے مسجد پر پڑی اور سرکاری طور پر نماز باجماعت پر پابندی لگادی گئی۔ تمام مکاتب فکر کے علما نے اس پابندی کی توثیق کی اور مشترکہ اجلاس میں طے پایا کہ مساجد میں صرف اذانیں دی جائیں گی اور باجماعت نماز میں صرف تین افراد شریک ہوں گے اس کی شکل یہ ہوگی کہ امام مسجد امامت کرائے گا اور مسجد کا موذن اور خادم اس کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔ اس پابندی پر کہاں تک عمل ہوا؟ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ سندھ میں تو نماز جمعہ کے اجتماعات کو روکنے کے لیے کرفیو تک لگایا گیا۔ اب رمضان آرہا ہے تو مسجد کے بغیر اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ رمضان کی آمد پر مساجد کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان سبھی مسجدوں کا رُخ کرتے ہیں اور پانچوں نمازوں میں حاضری بالعموم جمعہ کے اجتماعات کے مماثل ہوجاتی ہے پھر عشا کے بعد تراویح کی رونق کے کیا کہنے! سچی بات ہے پورے رمضان مسجدیں شب و روز جاگتی رہتی ہیں، بہت سی مسجدوں میں افطاری کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور راہ چلتے مسافر اس سے مستفیض ہوتے ہیں۔ پھر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف ہوتا ہے اور مسجدیں معتکفین سے بھر جاتی ہیں۔
اب کی دفعہ کورونا نے مسجدوں کے اِس زندہ و جاوید کردار کو ایک سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ پورے ملک میں اس وبا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے لاک ڈائون جاری ہے۔ تاہم علمائے کرام نے اپنے مشترکہ اجلاس میں موجودہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران لاک ڈائون کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا اور اہل وطن ضروری احتیاط اور حفاظتی تدابیر کو بروئے کار لاتے ہوئے مساجد میں نماز باجماعت اور تراویح ادا کرسکیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علما کا یہ فیصلہ عوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کررہا ہے۔ کورونا کی وبا نے لوگوں میں رجوع الی اللہ اور خشیت ِ الٰہی کا جو جذبہ بیدار کیا ہے اس کا اظہار مسجدوں میں سجدہ ریز ہو کر ہی ممکن ہے۔ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ جو شخص مسجد میں داخل ہوتا ہے وہ درحقیقت اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے اور اللہ کی رحمت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ مسجد میں صف بندی کے دورن فاصلہ رکھنا، نمازیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحے اور معانقے سے گریز کرنا، صرف زبانی سلام کرنے پر اکتفا کرنا اور مسجد میں داخل ہوتے وقت سینی ٹائزر کا استعمال۔ یہ احتیاطی تدابیر ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر نمازی کورونا کے پھیلائو کو روک سکتے ہیں اور اپنی عبادت کو بھی بامقصد بناسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے پوری امید ہے کہ وہ رمضان المبارک میں اپنے بندوں کی آہ و زاری کو قبول فرمائیں گے اور نہ صرف پاکستان سے بلکہ پورے عالم اسلام بلکہ پوری دنیائے انسانیت سے اس وبا کے خاتمے کا حکم جاری فرمائیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ رمضان کی برکت سے حرمین شریفین کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی اور اس سال حج کا انعقاد بھی ممکن ہوسکے گا۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔