کورونا: غریب کو بھوک اور امیر کو کاروبار کی فکر نے ماردیا

590

کورونا وائرس سے کم وقت میں بہت جانی و مالی نقصانات ہوئے۔ لیکن سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت زندگی اور موت کے بارے میں جو یقین کے دعوے کرتے تھے ان کی قلعی اُترگئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ دیگر انسانوں کے ساتھ ہم مسلمان بھی خود سے احتیاط کرکے بیماری سے کیا موت سے بھی بچ نکلنے کی کوشش میں لگ گئے۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں واضح طور کہا ہے کہ ’’اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی (اللہ) مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔
جبکہ قرآن کو بھی اللہ نے شفا کا ذریعہ بیان کیا ہے مگر بعض علماء احتیاط کے نام پر مساجد میں بڑی تعداد باجماعت نماز ادا نہ کرنے کا بھی مشورہ دینے لگے تھے۔ یہ سب کچھ خوف کی وجہ سے ممکن ہوا۔ مگر دنیا بھر میں کورونا کا شکار ہوکر جاں بحق ہونے والے مریضوں کا ریکارڈ یا پیشنٹ ہسٹری پر نظر نہیں رکھی گئی۔ رکھی بھی کیسے جائے جب اس بیماری کے حوالے سے خوف اس قدر پھیلادیا گیا کہ عام لوگ تو کجا ڈاکٹر بھی مریضوں کے قریب جانے سے گریز کرنے لگے، ساتھ ہی یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد بھی وائرس کسی دوسرے انسان تک پہنچ سکتا ہے۔ پھر منظم طور پر اس سلوگن کو فروغ دیا گیا کہ ’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر ہم سب کو گھروں میں بند اور مساجد سے بھی دور کردیا گیا تھا یا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسا وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں کیوں کیا گیا؟ اس امر کی بہت باریک بینی سے تحقیقات کی جانی ضروری ہے۔ کیا کسی بیماری سے لڑنا ایسا ہوتا ہے؟ اول تو کسی مرض سے لڑنا ہوتا بھی نہیں بلکہ اس کا علاج کرانا ہوتا ہے۔ الحمدللہ مسلمان علاج کو سنت عمل سمجھتے ہیں اور سب مسلمان اور دیگر مذاہب میں بھی ہر مرض کا علاج کرانے پر یقین ہے۔ لیکن کورونا وائرس کے بارے میں یہ تاثر بہت تیزی سے پھیلایا گیا کہ اس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا قرآن شریف پر اعتماد اور اعتقاد ہے۔ انہیں یقین ہے کہ جب اللہ نے یہ کہہ دیا کہ ’’اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی (اللہ) مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔ مگر کورونا وائرس کو لے کر سائنس دانوں نے شفا کی بات کے بجائے اس کے خطرناک ہونے کے تاثر کو فروغ دیا۔ ان سائنس دانوں یا ماہر کیمسٹری اور پتھالوجی میں جنہوں نے اس وائرس کو شناخت کیا اور اس کو کورونا نام دیا ان میں کوئی ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ گو کہ ہم غیر مسلموں کی کسی بھی بات پر یقین کرکے ان ہی کے مشورے پر وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے جو وہ کہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے احکامات اور اس کی آخری کتاب قرآن پاک سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہم لوگ کسی معاملے پر احتیاط کرنے کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور اس پیارے نبی محمدؐ نے جو باتیں سمجھائیں ہیں یا بتائی ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہ ہمارے ایمان کی حالت ہے۔کورونا سے بچنے کے لیے پاکستان نے جتنی احتیاط کی اتنی ہی اموات ہونے لگیں، کیس بڑھنے لگے مگر کیا دیگر امراض سے کسی کا انتقال نہیں ہورہا تھا؟ یا دیگر بیماریوں سے لوگ نہیں مررہے تھے؟ ایسا نہیں تھا بلکہ ہر مرنے والا کورونا کا بنا دیا گیا تھا یا اسے اسی میں شمار کیا جارہا تھا۔
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی بلاشبہ ملک کا ایک بڑا سرکاری اسپتال ہے یہاں کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے میڈیا میں آکر یہ بات بغیر کسی تصدیق کے کہہ دی کہ گزشتہ ماہ کورونا سے ایک سو تیرا افراد کو مردہ حالت میں لایا تھا جن کا پوسٹمارٹم کرائے بغیر لواحقین لے گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب پوسٹمارٹم نہیں کیا گیا تو ایک عہدے پر فائز شخص نے کس بنیاد پر یہ بات کہی؟ کوئی سیمی جمالی سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت یا اختیار رکھتا ہے۔ اس بے بنیاد بات کو میڈیا پر لایا گیا تو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی سچ سمجھ کر لوگوں سے معافیاں مانگنے لگے۔ مگر شاید وزیراعلیٰ بھی ڈاکٹر سیمی جمالی سے باز پرس نہیں کرسکتے؟ اس بات سے شہر میں جو خوف و ہراس میں اضافہ ہوا اس کے نتیجے لاک ڈائون میں نرمی کے بجائے مزید سختی کرنے کی بات خود وزیراعلیٰ نے کردی۔ کورونا سے سو افراد کے مرنے کی جناح اسپتال کی ڈائریکٹر کے بیان کی انکوائری اور ایسا بیان دینے پر انہیں فوری عہدے سے برطرف کرنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ اس طرح کی آئندہ بھی سنگین غلطیاں دہرائی جاسکتی ہیں۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں اس قدر شک و شبہات کیوں ہیں۔ چین میں جنوری کے آخر کے چار دن میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا انکشاف ہوا اور پھر اس کی تباہ کاریوں اور احتیاط کرنے کا واویلا مچایا گیا۔ پاکستان میں ایک ماہ بعد یعنی 25 فروری کو کورونا کے دو کیس سامنے آئے جس کے بعد احتیاط کرنے کی فضاء ایسی تخلیق کی گئی کہ پوری دنیا کی طرح ہمارے پورے ملک کو بھی خوفزدہ کردیا گیا اس معاملے میں صوبہ سندھ جہاں ایک خاص فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی حکمرانی ہے وہ سب سے زیادہ متحرک نظر آیا۔ سندھ کے حکمرانوں نے گاؤں دیہات کو نظر انداز کیا اور کراچی سمیت بڑے شہروں میں لاک ڈائون کے نام پر سختیاں کیں، دیکھا دیکھی پورے ملک میں ایک ہی طرح کی فضا قائم کرنے کوشش کی گئی۔ احتیاط جتنی کی جاتی رہی اُتنے ہی زیادہ کورونا کیس سامنے آنے لگے۔ اعداد وشمار سے پتا لگتا ہے کہ 26 فروری کے بعد یومیہ بنیادوں پر کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی تعداد 28 مارچ تک 1495 ہوگئی جو اب 15 اپریل تک 6383 تک پہنچ گئی اور مرنے والوں کی کل تعداد 15 اپریل تک ایک سو گیارہ ہوچکی تھی جو 17 مارچ تک صفر تھی۔ سوال یہ ہے کہ احتیاط کرنے پر مرنے اور بیمار ہونے والوں کی یہ تعداد کیوں برھتی رہی؟ اس کا مطلب یہ کہ احتیاط کے نتائج خطرناک نکلے۔ دلچسپ بات یہ کہ جہاں لوگوں نے اللہ پر توکل کیا اور احتیاط نہیں کی ان علاقوں میں نہ مریض زیادہ نکلے اور نہ اموات کورونا سے ہوئی۔ ایسے اعداد و شمار دیکھ کر شبہ ہوتا ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘، نہیں پوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔ تو چلیے اللہ کی ذات پر یقین کرتے ہوئے ’’کورونا وائرس کی دال پکانے والوں کو تلاش کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ قابل گرفت ہیں جنہوں کورونا وائرس کا خوف پھیلاکر امیر اور قریب دونوں کو ہی خوف کا نشانہ بنایا، غریب بھوک سے اور امیر اپنے کاروبار کی فکر میں خوف سے دیگر بیماریوں کی لپٹ میں آکر جیتے جی مرگیا۔