راشد منان
24 فروری 2020 کے بعد ہر سیل فون پر کسی کال سے پہلے کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کا پیغام ’’کورونا کی وبا جان لیوا نہیں مگر خطرناک ہے‘‘۔ ہر خاص و عام کو نہ صرف ازبر ہو چکا بلکہ ان کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ بھی ہوگیااس پر عمل درامد کس حد تک ہوا اور ہو رہا ہے، سرکاری اقدامات کس حد تک درست تھے اور انفرادی حیثیت میں کتنا عملدرآمد ہوا اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے سندھ حکومت کے فیصلوں اور وفاقی حکومت کا اس پر ردعمل اور خود وزیر اعظم کے قوم سے پے درپے لاک ڈاون مخالف خطابات نے عوام کو اس جانب راغب نہ کیا اور ان کو اس عمل سے دور رکھا اور وزیر اعظم کے چونکہ اور چناںچہ کے باعث ملک بھر میں کیے گئے اقدامات کے ممکنہ نتائج ہنوز حاصل نہ ہو سکے اور اب تو ان کا فلسفہ اپنے مکمل عروج تک پہنچ چکا، موصوف کو یہ بات کہنے میں ذرا بھی تامل نہ ہوا کہ ان کے حساب سے ان کی تقریر کے وقت تک 190 افراد کو موت کی وادی میں پہنچ جانا چاہیے تھا۔ یہ بات وزیراعظم کو کتنی زیب دیتی ہے اس کا فیصلہ ان کے سلیکٹرز کی طرف لوٹا کر ان کے ایک اور فلسفے کا سرسری ذکر کرتے چلیں جس کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ کہنا پڑا کہ ملک کی معیشت تو پھر زندہ کی جا سکتی ہے مگر مردہ انسانوں کو زندہ نہیں کیا جا سکتا اس بات کو وزیر اعلیٰ سندھ کی دور اندیشی شمار کیا جا سکتا ہے جن کے فیصلوں پر نہ چاہنے کے باوجود خود وفاق اور ان کے اتحادی صوبوں نے عملدرامد کیا جن میں سے ایک اہم فیصلہ پی ایس ایل کے میچز کا بغیر تماشائیوں کے انعقاد بھی تھا جسے بعد ازاں حکومت کو موخر کرنا پڑا گوکہ حکومت سندھ کی پالیسیوں پر بھی بہت سارے تحفظات ہیں اور اب تو عدالت عظمیٰ بھی ان سے آٹھ ارب روپے کی امداد کے حسابات طلب کر رہی ہے۔
کورونا وائرس کا مذکورہ پیغام سماجی فاصلوں کی بار بار یاد دہانی کرا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمیں ہر وہ اقدامات کرنے تھے جو اس موذی وبا کو روکنے میں معاون ہوتے اور جس کی بنیاد پر لوگوں نے اپنے روزی روزگار کو قربان کیا، دفاتر کارخانے بند سیاسی سماجی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل کی گئیں حتیٰ کہ مذہبی رسوم پر پابندی کو بھی برداشت کیا۔ حکومتی اقدامات کو تمام مذہبی جماعتوں اور علماء کرام کی طرف سے مکمل حمایت ملی اور ایک مشترکہ اجتہادی فتوے کی روشنی میں مساجد تک میں عبادات حتیٰ کہ لوگوں نے جمعۃ المبارک کے فرائض کو چھوڑ کر گھروں میں ظہر کی نماز تک خود کو محدود کیا تاہم تمام کاروباری طبقات اور مذہبی جماعتوں کو وزیر اعظم کے غیر مبہم بیانات اور لاک ڈاون سے متعلق ان کی کمزور پالیسی اور موقف پر اپنے تحفظات تھے جس کا اظہار حکومت کے احساس کفالت پروگرام کے تحت حکومت کی طرف سے چار ماہ کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم کا یکمشت لوگوں میں تقسیم کرکے اس کی تشہیر کرانا تھا جس نے ایک طرف تو غریب اور مجبور عوام کی عزت نفس کو مجروع کیا اور دوسری جانب تمام احتیاطی اقدامات کے بخیے تک اُڈھیر دیے۔ اس کے بعد 14 اپریل کے سینٹرل کمانڈ کے اجلاس کے جاری فیصلوں نے علماء کرام کو مساجد کا لاک ڈاون ختم کرنے اور رمضان کی تمام عبادات کو اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کرنے کے مشترکہ اعلان پر مجبور کیا جس کے جواب میں حکومت کے ذمے داران اور نجی ٹی وی چینل پر علماء کرام کو آن لائن لیکر ان سے ان کی اپیل پر نظر ثانی کا کہا جارہا ہے اور جواز یہ دیا جارہا ہے کہ دیگر اسلامی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب میں تو رمضان تک کی عبادات کو حالات کی سنگینی کے نتیجے میں موخر کیا جا رہا ہے تو آپ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے، تو جواباً عرض ہے کہ ہر ملک کی پالیسیوں کا مرکز و محور ان کے اپنے حالات ہوتے ہیں امریکا، اٹلی، جرمنی اور فرانس موجودہ وبا کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں مرتب کریںگے جس کا اطلاق دوسرے ممالک پر نہیں ہوگا سوئیڈن اور ایران کے عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں کی برطانیہ نے حالات سے نبٹنے کے لیے کیا حکمت عملی مرتب کی۔
دوسری اہم بات یہ کہ ان ممالک اور ہمارے ملک کے لاک ڈائون میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ان کے یہاں ہر قسم کے چھوٹے بڑے کاروبار حتیٰ کے گلی محلے کے اسٹورز تک بند ہیں ان کو لاک ڈائون پر سختی سے عملدرآمد کرایا گیا لہٰذا اگر سعودی عرب رمضان المبارک اور عمرہ و حج تک کی عبادات پر پابندی لگائے تو کسی کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں رہی بات امریکا میں امراء کا اپنی بڑی گاڑیوں میں لائن میں لگ کر حکومتی امداد کا وصول کرنا اس پر بھی کوئی اچھنبا اس لیے نہیں کہ ان کے یہاں بھی مکمل لاک ڈائون نے ان کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا انہیں اس پر کوئی شرمساری اس لیے بھی نہیں کہ وہ حکومت کو پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں اور وقت پڑنے پر حکومت کی دل کھول کر اعانت بھی انہیں اپنی زندگی کے ساتھ اپنے پالتو جانوروں کی ہلاکت کا خوف بھی کھائے جاتا ہے، جبکہ ہمارے ملک کے غریب لوگوں کی امداد کے نام پر بھر پور تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو ایسی بھی وائرل ہوئی جس میں وزیر اعظم کے احساس کفالت پروگرام کی رقم کی ادائیگی کے بعد مستحق فرد کو ناچ اور گا کر وزیراعظم زندہ باد کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا۔ کیسے ہیں ہم لوگ اور کہاں کے ہم مسلمان؟ ہم نے تو ان مسیحائوں کی بھی کوئی توقیر نہ کی اور ان کے اعزاز میں کوئی گارڈ آف آنر پیش نہ کیا جنہوں نے اس موذی وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قوم پر نثار کر دیں کیوں نہ بعد از مرگ ان کے لیے کسی تمغہ شجاعت اور ان کے اہل خانہ کے لیے کسی امدادی رقم کا اعلان کیا گیا؟؟ فیاض الحسن چوہان نے صحافیوں کی موت سے مشروط جس رقم کا اعلان کیا وہ ان کی موت کا انتظار کیے بغیر ان کو کیوں نہ ادا کر دی جاتی؟؟ حکومت وقت کو آخر کثیر ہلاکتوں کا انتظار کیوں ہے؟