کورونا اور معیشت

305

مہک سہیل
دنیا میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی17 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ وائرس ایک ہوا کے جھونکے کی طرح انسانی جسم میں داخل ہوا اور انسان کو کچھ ہی دن میں نگل گیا لاشوں کے انبار لگادیے دن رات اموات کی گنتی جاری ہے دوسری جانب امریکا اور چین کے درمیان وائرس کو لیکر لفظی جنگ جاری ہے، یہ وائرس کسی انسان یا جاندار کی شکل میں نمودار نہیں ہوا بلکہ اس کا اندراج انسانوں کے اندر ہوا اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیا میں کورونا نے اپنے پنجے گاڑ لیے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کے 11 لاکھ 55 ہزار 720مریض اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں جن میں سے 49 ہزار 123مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے جبکہ 3 لاکھ 72 ہزار 740 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ 107,520 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
لاک ڈاؤن اور حکومتی پابندیوں کی وجہ اسٹاک مارکیٹیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا کے نتیجے میں عالمی جی ڈی پی میں تقریباً 2.7 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا کورونا وائرس پھیلنے سے پیدا ہونے والی عالمی معیشت میں سست روی پر کم سے کم ایک ٹریلین ڈالر لاگت آنے کا امکان ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی تخمینہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت کو 4.1ٹریلین ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے یہ اسٹاک مارکیٹوں کی سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ پہلے ہی مندی کا شکار ہے یہ 30سال میں پہلی مرتبہ ہوگا جب عالمی سطح پر غربت میں اضافہ ہوگا۔ سود کی شرح سے لے کر تیل کی قیمتوں تک، عالمی معیشت کے دیگر شعبوں میں بھی اس کا اثر مرتب ہوا ہے، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کے کھربوں ڈالر ڈوب چکے ہیں۔ اس نے دنیا کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا ہے اور عالمی معیشت کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے۔ اِس وائرس سے لاکھوں انسان شدید اذیت میں گھرے ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وائرس کے علاج یا ویکسین کے لیے ٹائم لائن کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں اور نہ ہم یہ طے کرسکتے ہیں کہ دنیا کی معیشت اس سے کتنی تباہ ہوگی لیکن یہ طے ہے کہ دنیا کی معیشتوں کو واپس آنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔ کئی ممالک کی حکومتوں اور اسٹیٹ بینکس نے امدادی پیکیجز متعارف کرائے ہیں، یہ ممالک اقتصادی پالیسیاں بھی بنارہے ہیں، لیکن بحران کی شدت زیادہ ہے امریکا نے اپنے اور معیشت کو بچانے کے لیے 2 ٹریلین ڈالرز کا پیکیج دیا ہے، اس کے باوجود وہاں ایک کروڑ افراد اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔ برطانیہ، یورپ، بھارت اپنی معاشی سرگرمیاں چلانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف آئندہ ہفتے پاکستان کو ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کے فنڈز جاری کرے گا۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چند روز قبل وفاقی کابینہ نے 1200 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کی منظوری دی تھی، وزیرِاعظم کے حکم کے مطابق غریبوں میں 12ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے اڑھائی ہفتے میں 144ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے۔ تاہم انہوں نے اس امداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چار مہینوں کے لیے ایک خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ رقم بہت کم ہے۔ ایک مہینے میں تین ہزار روپے کے ذریعے ایک خاندان کی کفالت بہت مشکل ہے۔ یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں زندگی منجمد ہوتی جا رہی ہے ساتھ ہی یورپی یونین کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں آئے دنیا کے غریب ممالک کے لیے 15بلین یورو فنڈ مختص کرے گا اس فنڈ سے ان ممالک کی مدد کی جائے گی جہاں کا نظام صحت کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے کمزور ہے جبکہ اس فنڈ سے طویل المدتی اقتصادی بحالی کے لیے بھی مدد کی جائے گی۔ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات ہیں موجودہ رمضان کورونا سے پیدا شدہ مشکل ترین حالات میں آ رہا ہے جس میں عوام کی قوتِ خرید بالکل جواب دے چکی ہے۔ لاکھوں افراد پہلے ہی بیروزگاری کے سبب ان حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ماہِ مبارک رمضان کی آمد میں بھی حالات یہی رہے تو روز کے کمانے والوں کے لیے گزارا کرنا بہت مشکل ہوجائے گا اس کے لیے حکومت کو مزید فنڈز عوام کو دینا ہوںگے حکومت کے ساتھ صاحبِ حیثیت حضرات کو بھی آگے بڑھ کر ملک کے غریب اور دہاڑی دار طبقے تک رسائی حاصل کر کے ان کی مدد کرنا ہوگی تاکہ خوراک کی فوری تقسیم ممکن ہو سکے ورنہ لوگ بھوک سے مرنے لگیں گے۔ پوری دنیا کو اس وقت زیادہ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈکس کی ضرورت ہے پوری دنیا ساری قوم، فوج اور انتظامیہ مل کر اس صورتحال اور اس وبا کا مقابلہ کریں گے اور امید ہے انسانی جانیں بچانے میں کامیاب ہوںگے اور جلد اس سے نجات حاصل کریںگے بس امید کا دامن تھامے رکھنا ہے۔