یہ مراسلہ گزشتہ دو شماروں 14 اور 21 اگست میں شائع ہونے والے ایک افسانے سے متعلق ہے۔ مراسلہ نگار کے مطابق اس تحریر سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور مدرسے کی تعلیم پر سوال اٹھے ہیں۔ ہم یہاں اس تحریر کو قاری کے نکتۂ نظر کے طور پر شائع کررہے ہیں۔ اگر کوئی اس موضوع پر لکھنا چاہتا ہے تو اپنا نکتہ نظر پیش کرسکتا ہے۔ (انچارج صفحہ خواتین)
۔۔۔*۔۔۔
محترمہ غزالہ عزیز صاحبہ
انچارج صفحہ خواتین!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔۔۔ دلی دکھ اور تکلیف کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ گزشتہ 14 اگست اور 21 اگست کو صفحہ خواتین پر نائلہ شاہد صاحبہ کا افسانہ دو قسطوں میں جسارت سنڈے میگزین کی زینت بنا جس نے دینی و عصری تعلیمی امتزاج کے حامل اداروں کے لیے سوالیہ نشان ہی کھڑا نہیں کیا بلکہ ان کی انتظامیہ اور متعلقین کو دفاعی پوزیشن میں لاکر کرب سے دوچار کیا ہے۔ یہ بات تو آپ بخوبی جانتی ہی ہیں کہ اس دورِِ فتن میں سب سے آسان کام دین، دینی اداروں، مذہبی شخصیات کو نشانہ بنانا ہے۔ میڈیا یہ کام پوری قوت سے کررہا ہے۔ ایسے میں یہ کام اپنے مورچوں سے ہونے لگے تو تکلیف دوچند ہوجاتی ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ ادارے معاشرے کا بے غرض اور مخلص ترین عنصر ہیں جو گھر، خاندان، اداروں، اقدار و روایات کو نئی زندگی دینے کا کام کررہے ہیں۔ ایسے میں کچھ خصوصی کیس اس نوعیت کے بھی سامنے آتے ہیں جنہیں عمومی بنانا ہرگز ہرگز مناسب نہیں۔ عمومی رویہ تعمیر اور مثبت پیش رفت کا ہے، جس کی ہمارے پاس ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔ جنہوں نے اپنا آپ مٹاکر گھروں اور خاندانوں کو جوڑے رکھنے، ادب و لحاظ، شرم و حیا کی پاسداری، اقدار و روایات کی محافظت کے فریضے کو ادا کیا ہے اور کررہی ہیں، جن کو دیکھ کر خاندان والے ان جیسی بہوؤں کی آرزو کرتے ہیں۔
میں خود ایک ایسے ہی ادارے کی تعلیم یافتہ اور اب وہاں کی انتظامیہ میں موجود ہوں۔ بعض خواتین تو بضد ہوتی ہیں کہ بہو بس یہیں سے چاہیے کہ یہاں کی بچیوں نے ہمارے گھروں اور خاندانوں کے رجحانات تک کو بدل ڈالا ہے۔ میں نے خود اپنے اکلوتے بھائی کے لیے بھابھی یہیں سے ڈھونڈی ہے کہ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں میں ایمان کی حفاظت مطلوب ہے۔ اس ادارے سے حاصل کردہ اخلاص، محبت، ایثار، قربانی،تعلق باللہ، رشتوں اور قرابت کا پاس، خدمت اور کچھ کرکے مرنے کا جذبہ ہی ہے کہ ہر آنے والا دن جہاں مشکلات لاتا ہے وہیں اس راستے پر جماؤ اور بڑھ جاتا ہے۔ یہاں جس سسٹم کے تحت ذہنی، جذباتی، فکری اور روحانی تربیت اور تزکیہ سکھایا جاتا ہے معاشرے میں کوئی اور ادارہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
یہاں تو حضرت عائشہؓ، حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ جیسے کرداروں کی تعمیر پیش نظر ہوتی ہے۔ باوجود ہزار مخالف طوفانوں اور رجحانات کے، ان اداروں کی اثر پذیری سے انکار ممکن نہیں۔ ہم الحمدللہ اپنے مقاصد میں کامیابی کے اطمینان کے ساتھ محوِ سفر ہیں۔ کمی اور کوتاہی یقیناًممکن ہے جس پر فکر کے ساتھ محاسبہ ہوتا ہے اور بہتری کی طرف پیش رفت بھی مستقلاً رہتی ہے۔ یہاں تک کہ خصوصی کیسز کو بھی عام معاشرے کی طرف چھوڑ نہیں دیا جاتا، اصلاح اور جوڑ کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
کچھ نکات افسانے کے اندر بھی قابلِ توجہ ہیں جس کی بنا پر سوال اٹھتا ہے کہ اسے فکری اور تحریکی میگزین میں جگہ کیسے دے دی گئی؟
*۔۔۔ ساس کا کردار ناقابلِ فہم ہے، ایک طرف محترمہ کی شخصیت میں حکمت اور سمجھ داری موجود ہی نہیں حالانکہ افسانے میں ذکر کردہ تمام معاملات کو سمجھ داری اور حکمت سے حل کیا جاسکتا تھا۔ تو ایک ایسی ساس جس میں حکمت خود موجود نہیں، نئی نویلی بہو جو تجربے اور عمر میں بھی اس سے بدرجہا کم ہے، اس سے حکمت کا تقاضا کیسے کرسکتی ہے! حکمت تو ایسی چیز ہے جو دس سے بارہ برس میں آجاتی ہے اور نہ آئے تو قبر میں اترنے تک نہیں آتی۔
*۔۔۔ سمجھ دار خواتین خاص صفات کی بہو تلاش کرتے ہوئے صرف بہو کے حصول ہی کو مشن نہیں بناتیں بلکہ اپنے گھر کے ماحول کو اسی کے مطابق کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ ایک ڈاکٹر بہو کے آنے سے پہلے پورا ماحول بن چکا ہوتا ہے کہ وہ کلینک کرے گی، لہٰذا سب نہ صرف ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں بلکہ ممکن حد تک معاونت بھی کی جاتی ہے، تو پھر دینی رجحان کی حامل بہو کے ساتھ رویّے میں تضاد کیوں؟ اور اس پر محدود دائروں میں بھی پابندیاں کیوں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دینی رجحان کی حامل بہو صرف ’’قربانی کے بکرے‘‘ کے تصور کے تحت گھر لائی جاتی ہو۔۔۔ اور یقیناًایسا ہی ہے، اس میں سوچنے والے کا قصور ہے۔
*۔۔۔ یہ بھی یاد رہے کہ حکمت اور ہر بات پر سر جھکا دینے میں فرق ہے۔ حکمت آمنا و صدقنا ہر معاملے میں کہنے کا نام نہیں، لہٰذا کسی عالمہ سے اس کا تقاضا کرنا کہ وہ دینی معاملات کو صرف کتابوں تک رکھے گی اور عملی زندگی میں معاشرے میں رائج رجحانات کے سامنے سر جھکا دے گی، تو جناب یہ ناممکن ہے۔ لہٰذا افسانہ نگار کو حکمت کے تصور کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
*۔۔۔ کسی گھر میں لڑائی جھگڑے ہونا معمول کی بات ہے، ان کی بنیاد پر فوراً نتائج اخذ کرلینا، اداروں اور رشتوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا جلد بازی کے سوا کچھ نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ حق کا راستہ مشکلات کا راستہ ہے۔ انبیائے کرام اور راہِ حق کے مسافروں کو جہاں عظمت اور بلندیاں ملیں وہاں ان کانٹوں بھرے خارزار راستوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جب کوئی انہیں وقعت دینے کو تیار نہ تھا اور انہیں ڈھونڈے سے بھی کوئی کندھا دستیاب نہ ہوتا تھا۔ لہٰذا مسائل اور مشکلات کے اس پہلو کو چھوڑ کر منفی انداز سے کام لے کر دینی تعلیم اور اداروں کو نشانہ بنانا درست نہیں۔ الحمدللہ ثمہ الحمدللہ یہ ادارے رحمت (بیٹی) کو حقیقی رحمت میں ڈھال رہے ہیں جہاں زحمت کا وجود نہیں۔
بہت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ اس تحریر کو بھی اسی صفحے پر جلد جگہ دی جائے تاکہ ہمارا نقطہ نظر عام قاری تک پہنچنے کے ساتھ جسارت کے ذمے داران تک پہنچ کر فلٹر مہیا کردے۔ اگر اس تحریر کو جگہ نہ دی تو ہم یقیناًیہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جسارت جرأتِ اظہار کے سلیقے کو بھلا چکا ہے۔