سفید ہاتھی نے کہیں کا نہ رکھا، عوام لوڈ شیڈنگ اور ناجائز بلنگ سے تنگ

302

زاہد عباس

ایک زمانہ تھا جب ہم گر میوں کی چھٹیاں گزارنے لاہو ر جایا کر تے، جون، جولائی کی چھٹیاں پڑتے ہی دل کرتا ٹرین میں بیٹھیں اور لاہور پہنچ جائیں۔ ان دنوں میں قریباً سارے ہی رشتے داروں سے ملا قات ہوجاتی۔ ہمارے کزنز بڑ ی بے تابی سے ہمارے آنے کی راہ تکتے، مہمان ہونے کی وجہ سے ہماری بڑی آؤ بھگت کی جاتی۔ شاید اس کی ایک وجہ ہمارا کراچی میں رہائش پذیر ہونا بھی تھا۔ رو شنیوں کے شہر کراچی سے آئے مہما نوں کی قدر اس وقت اور بھی بڑھ جاتی جب لاہور میں لوڈ شیڈنگ ہو نے لگتی۔ بجلی جاتے ہی ہمار ے مزاج آ سمانوں کو چھو نے لگتے۔ ہم اِترا اِترا کر لاہوریوں سے کہتے: بھائی، یہ کیا طریقہ ہے ہر دو گھنٹے بعد بجلی بند ہوجاتی ہے، کیا کو ئی پو چھنے والا نہیں، بڑا صبر ہے آپ لوگوں میں اپنے حقو ق کے لیے آ واز تک بلند نہیں کرتے، بجلی آئے، جائے آپ کو کوئی سروکار ہی نہیں، کس طرح آپ بجلی کے بغیر زندگی گزارتے ہو؟ ہم ایسے کئی طنزیہ تِیر ان غریب لاہوریوں پر چلاتے۔ ہم انہیں بڑے فخر سے بتاتے کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کبھی کسی فنّی خرابی کے علاوہ کبھی بجلی بند ہو۔ کسی اونچی عمارت پر کھڑے ہو کر کراچی کی چمک دھمک ایک دل فریب منظر پیش کرتی ہے۔ رات میں کراچی کی اس چمک دھمک کو جس نے دیکھا ہو، وہ بھلا کس طرح بجلی کی ’’آون جاون‘‘ برداشت کرسکتا ہے۔
سو جو بھی ہمارے ذہن میں آتا، شیخی بھگارتے بول جاتے۔ لاہور میں رہنے والے ہمارے کزن سرجھکا ئے تنقید بر داشت کرتے اور کر تے بھی کیا ہم حقیقت بیان کر رہے ہوتے، کیوں کہ ہم نے اس وقت تک لو ڈ شیڈنگ کے عذاب کو جھیلا نہیں تھا۔
ہم تو اس شہر کے باسی تھے، جس کی سڑکیں، محلّے، پارک اور عمارتیں روشنیوں سے جگمگاتے رہتے۔ ہم نے جب سے ہو ش سنبھالا، اسی طرح شہر کراچی کو رو شن دیکھا، ہمیں لا ہور میں ہونے والی لو ڈشیڈنگ پر بڑ ی حیرت ہوتی۔ اور ہم یہ سو چنے پر مجبور ہوجاتے کہ بجلی بھی بچا نے کے لیے بند کی جاتی ہے۔ ہر دو گھنٹے بعد بجلی بند ہو نا ہماری سمجھ سے باہر تھا ہماری روز ہی اس سلسلے میں تکرار ہوتی اور وقت گزرتا جا تا، چھٹیاں ختم ہونے پر ہم کراچی آجاتے یہاں آکر ہمیں لاہور کی لوڈ شیڈنگ عذاب سے نجات ملتی۔
ارے قا رئین، آپ تو حیرت میں پڑگئے۔۔۔ہم نے جو ذکر کیا، وہ قر یباً 80 کی دہائی کا ذکر ہے، جب شہر کراچی میں بجلی کی تر سیل کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی ذمّے داری ہوا کرتی تھی، واپڈا کے مقا بلے میں کراچی الیکٹر ک کارپوریشن اچھی سروس دیا کرتا، رفتہ رفتہ کراچی میں سیاسی صورت حا ل ابتر سے ابتر ہو نے لگی، کراچی میں بسنے والے عوام کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا کے اس بدلتی ہوئی صو رت حال کے ساتھ سب کچھ ہی بدل جائے گا۔ عوا م کو سیا سی سوداگران نے ایسے خواب دکھائے، جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ معصو م عوام حسین خوابوں کی اس دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ اداروں میں سیا سی بنیادوں پر تقرریاں ہو نے لگیں، اہم ذمّے داریوں پر من پسند لوگوں کو بٹھا یا جانے لگا، رشوت کا بازار گرم ہوگیا، شہر میں قا نون نام کی کوئی چیز نہ رہی، تعصب کی بنیا د پر شہر کو تقسیم درتقسیم کردیا گیا، آ گ او ر خون کی ہو لی کھیلی جانے لگی ۔
خیر اس وقت ہماری نظر محکمہ الیکٹر ک پر ہے، کراچی الیکٹر ک سپلائی کارپو ریشن سیا سی عمل دخل کی وجہ سے سکڑتی چلی گئی پھر کیا تھا کراچی بھر سے تا نبے کی تاروں کو لُوٹنے کا عمل شروع کر دیا گیا، چن چن کر پورے شہر سے تانبے کی تا روں کو چو ری کیا گیا، شکا یاتی مراکز سے گا ڑیوں اور سا زو سا مان کو مال غنیمت کی طرح لوٹا گیا، یہ سب کچھ سیاسی بنیا د پر بھر تی کیے گئے افسران کی موجودگی اور ملی بھگت سے ہوا، افسران بالا کے حکم پر چور بازاری جاری رہی اور ملک سے باہر بیٹھے سیاسی اداکاروں نے محکمہ بجلی کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔ پالیسی بنا نے والوں نے ایسی پالیسیاں بنائیں، جن سے ادارے کی جڑیں کھوکھلی ہوکر رہ گئیں اورکراچی الیکٹر ک کار پوریشن ارباب اختیار کی بنائی ہوئی پا لیسیوں کے نتیجے میں سکڑ کر ’’کے الیکٹر ک‘‘ ہوگئی۔
اب کے الیکٹرک کونئے عزم اور ولولہ کے ساتھ نئے انداز میں لو ٹا جانے لگا۔ شہر میں ’’کنڈا کنکشن‘‘ کے نام پر بجلی کی سپلائی دی جانے لگی، اس طرح کرپشن کی نئی شکل متعارف کروائی گئی، ایک ہزار سے پندرہ سو روپے ماہوار کے الیکٹر ک عملے کو دینے کی صورت میں جتنی مر ضی بجلی استعمال کرنے کا اجا زت نامہ نا جائز طور پر دیا جانے لگا، شہر کراچی میں چائناکٹنگ کے نام سے بنا ئے گئے لاکھو ں مکا نوں میں ناجائز کنڈا کنکشن دیا گیا، جب کہ مارکیٹوں میں دیے گئے کنڈا کنکشن ان کے علاوہ ہیں، کروڑوں روپے کی اس کر پشن کو محکمے کی سر پر ستی میں کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ کنڈا کنکشن کے نام سے لگائے گئے کنکشن پر صارفین ہزاروں روپے کی بجلی استعمال کر کے بھی صرف ایک ہزار روپے ادا کرتے ہیں، باقی بل کی رقم کوقانونی صارفین کے بلوں میں ڈال کر بڑے ہی ظالمانہ انداز میں ان سے بل وصول کیا جاتا ہے شہر کراچی میں قانونی طور پر بجلی بلوں پر ASSDاورIRB لگایا جاتا ہے، کسی کے میٹر میں خرابی کہہ کر اضافی بل بنایا جاتا ہے، غر ض کسی نا کسی ناجائز طریقے کو جائز قرار دینے میں کے الیکٹر ک مصروف عمل ہے، اب قا نونی طور پر بجلی استعمال کرنے والے صا رفین اضافی بلوں کے بو جھ تلے دبے جا رہے ہیں وہ اپنے اضافی بلوں کو لے کر در بدر کی ٹھو کریں کھانے پر مجبو ر ہیں، شکایت کرنے پر افسر کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے کہ یہ بل تو آپ کو ادا کر نا پڑ ے گا، ہم آپ کی سہولت کے لیے اس کی قسطیں باندھ دیتے ہیں۔
آج کے الیکٹرک کا کوئی پیدا واری یونٹ کام نہیں کر رہا، واپڈا سے بجلی لے کر شہر کراچی میں تر سیل کرنے کے علاوہ کے الیکٹر ک اس وقت ایک ’’سفید ہاتھی‘‘ کے علا وہ کچھ نہیں، واپڈا سے بجلی لے کر کنڈو ں کی مد میں فرو خت کردی جاتی ہے، حکو مت کو یہ کہہ کر جان چھڑالی جاتی ہے کہ عوام سے واجبات لینے ہیں، یوں عوام پر رو ز بہ روز بجلی کے بم گرائے جا تے ہیں، عملے کو خا ص ہدایت کی جاتی ہیں کہ دو منزل مکان پر لازمی اے سی ڈال دو، بھلے ہو یا نہ ہو، اس سے محکمے کو کوئی غر ض نہیں، جب تک بل کلےئر ہو، ہزاروں روپے ناجائز بل میں شامل کر دیے جاتے ہیں ۔ مجھے کے الیکٹرک کے ایک بندے نے نام ظاہر کرنے کی شرط پر بتا یا کہ کارکنان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ہر حال میں ASSD، IRB یا اے سی ڈالا جائے، بصو رت دیگر ادارہ ہمارے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ قارئین، آپ کو کے الیکٹرک کا ظالمانہ سلوک بتاتا چلوں کہ میں نے ایسے ایسے گھروں میں بھی ناجائز اضافی بل دیکھے ہیں، جن کے گھروں میں دو وقت کی روٹی کھانے کمانے کا بندو بست بھی نہیں، حکومت عوام کی فریاد پر کان نہیں دھرتی، محکمہ کارروائی نہیں کرتا، عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ بعض گھروں پر لا کھو ں روپے کے بل بنا دیے گئے ہیں، غیر ملک سے بیٹھ کر چلائی جانے والی کے الیکٹر ک اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اس سے پہلے کے شہر مزید اندھیروں میں ڈوب جائے، ارباب اختیار ہوش کے نا خن لیتے ہوئے فوری کاروائی کر ے، خا ص طو پر اضافی بلوں کے متعلق جلد سے جلد کارروائی کرنا ہوگی، بہ صورت دیگر شہر کو تاریکیوں میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سیا سی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے افسران وکارکنان کو فوری تبدیل کرنے سے کافی حد تک شہر کراچی کی رو شنیوں کو بحال کیاجاسکتا ہے، اس سلسلے میں ایمان دار اور مخلص افسران کی تقرری وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ شہرِقائد کی روشنیاں بحال ہوسکیں۔
آج تو گھر کے بچے بھی ہماری باتوں پر یقین نہیں کرتے اگر ہم انہیں بتائیں کہ کبھی اس شہر میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ بچّے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف افسانوی کہانی سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج میرے کزنز اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب میں لاہور آؤں اور وہ چن چن کر مجھ سے میری کی گئی شیخیوں کا بدلہ لیں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ اسی شر مندگی کی وجہ سے میں برسوں سے لاہور نہیں جاسکا!!