سید اقبال چشتی
آفس سے گھر پہنچا تو میز پر ایک دعوت نامہ میرے نام سے رکھا ہوا تھا‘ دیکھا تو شہید عبد البصیر کی یاد میں درس قرآن کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دعوت نامہ پڑھ کے فوراً شہید کے ساتھ گزارے ہوئے دن یاد آگئے۔۔۔ ایک لمحہ میں فلم کی طرح تمام واقعات نظروں کے سا منے گھوم گئے اور ہر ایک دن یاد آنے لگا۔ ایک نوجوان جو اللہ کی سر زمین پر اللہ کے نظام کی جدوجہد کر نا اور لوگوں کو بھلائی کی طرف دعوت دینا اپنا فرض سمجھتا تھا اور کسی ڈر اور خوف کو خاطر میں لائے بغیر ظلم کے خلاف ہر جگہ کھڑا ہو جانا جس کا پسندیدہ مشغلہ تھا‘ مجبوروں اور بے کسوں کی امداد اور فلاحی کا موں میں آگے بڑھ کر کام کر نے کی عادت نے اس نوجوان کو علاقے میں کافی مقبول کر دیا تھا۔ عید قربان کے مو قع پر اجتماعی قر بانی کرنا اور محلے کے دیگر نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملانا اور سب کے ساتھ اپنے پیروں کو اللہ کے راستے میں غبار آلود کر نے کا شوق اس نو جوان کو شہادت کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک دن کچھ بدمعاش‘ جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا‘ اس نو جوان سے کہتے ہیں تم اپنی سرگرمیوں سے باز آجاؤ یہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔۔۔ لیکن صرف اللہ سے ڈرنے والا نوجوان اپنے مخالفین کو کہتا ہے یہ کام جو میں کر تا ہوں اللہ کے پیغمبروں نے کیا اور اُن کو بھی اس کام سے باز رکھنے کے لیے ڈریا ڈھمکایا گیا لیکن نبیوں نے فلاح انسانیت کا کام نہیں چھوڑا‘ میں تو ان کا پیروکار ہوں‘ لوگ برائی کی عادت کو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑتے میں دین کی سر بلندی کا کام چھوڑ دوں یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ تم بھی اللہ کے سایۂ رحمت میں آجاؤ۔ ’’باز آجاؤ ورنہ۔۔۔‘‘ آنے والے بدمعاش سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر چلے جاتے ہیں بالآخر مخالفین کو دین کی دعوت‘ سڑک پر ہو نے والا درس قرآن اور تمام تر دھمکیوں کے باوجود اجتماعی قر بانی ایک آنکھ نہ بھاتا اور ایک شام اس نوجوان کو‘ جو پورے علاقے میں عبد البصیر کے نام سے جانا جاتا تھا‘ گھر کے باہر ہی فائرنگ کر کے شہید کر دیا جاتا ہے۔ شہید کے ساتھی غصے میں بدلہ لینے کی بات کر تے ہیں لیکن شہید کے والد مو لانا عبدالعزیز‘ جو پاکستان بننے سے قبل حیدرآباد دکن کے امیر جماعت رہ چکے تھے‘ اپنے بڑے بیٹے سے کہتے ہیں ’’اس مجمع سے حلف لو کہ کسی قسم کا بدلہ اور لڑائی جھگڑا نہیں ہوگا۔۔۔ تمام لوگ صبر سے کام لیں گے۔۔۔ اللہ ظالموں سے بدلہ لے گا۔۔۔‘‘ وقت گزرتا رہا ظالم اپنے ظلم میں اضافہ ہی کر تے رہے ۔۔۔ ہم نے وہ منظر بھی دیکھا جب روز ایک شہادت کی خبر آتی اور تمام کارکنان اپنے شہید ہونے والے بھائی کے جنازے میں ضرور پہنچتے۔ اسلم مجاہد، مرزا لقمان بیگ، ڈاکٹر پرویز محمود ، سعد بن صلاح ، عامر سعید‘ عابد الیاس اور بے شمار شہداء جن کے نام یاد نہیں آرہے‘ نعرے لگاتے۔۔۔ مبارک مبارک شہادت مبارک، خون رنگ لائے گا‘ انقلاب آئے گا ۔۔۔ کچھ کا رکنان اپنے قا ئدین سے سوال کرتے کہ ’’ہم کب تک جناز ے اُٹھا تے رہیں گے۔۔۔؟‘‘ قائدین جماعت صبر کا کہتے اور کا رکنان صبر کے ساتھ ہی واپس اپنے گھروں پہ چلے جاتے کیو نکہ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔ اتنے ظلم کے باوجود کلمۂ حق کو بلند کرنا دین کے کام کر نے والوں کا ہی حو صلہ ہوتا ہے اور دین کی سر بلندی کے کام کسی ڈر اور خوف کے جاری رکھنا اور پھر جب الیکش آئے تو ظالم کے مقا بلے پر سینہ سپر ہو جانا بھی راہِ حق کے لیے کام کر نے والوں ہی کاعزم و حو صلہ ہو تا ہے۔ جہاں مردوں نے اس دعوت کو زندہ رکھا وہاں خواتین نے بھی ہر محاذ پر اس دعوت کے پرچار کا کام جاری رکھا۔ ایک واقعہ جو میرے سا منے ہوا 1990ء میں الیکشن مہم اپنے زوروں پہ تھی‘ شاید آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے دوسرا الیکشن تھا‘ گھر گھر ووٹر کارڈ تقسیم کر نے کا مرحلہ تھا۔۔۔ جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا کہ کارڈ لازمی تقسیم ہو ں گے اور میدان خالی نہیں چھوڑیں گے۔ فیصلہ کیا گیا کہ نظم خواتین‘ جو گھر گھر جاکر رابطہ کر رہی ہیں‘ ان کے ساتھ مرد کارکنان بھی ہوں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ میری ذمے داری اپنے محلے میں ایک بزرگ کارکن کے ساتھ لگائی گئی کہ آپ‘ دو خواتین کے ساتھ ساتھ رہیں گے اور خواتین کو گھر گھر رابطے کے دوران تحفظ فراہم کریں گے۔ جب ہم ایک دو گلیاں مہم چلا چکے تو ایک گلی میں جاتے ہی ایم کیو ایم کے چند بد معاش‘ جنھیں میں اچھی طرح جانتا تھا‘ ہمارے پاس آئے اور انتخابی مہم بند کرنے کو کہا۔ جس پر ایک خاتون‘ جو ہمارے ساتھ تھیں‘ نے کہا کہ ہم انتخابی مہم چلا رہے ہیں آپ اپنا کام کریں اور ہم اپنا۔۔۔ بعد میں عوام جو فیصلہ کرے۔ ایم کیو ایم کا ایک کارکن ہماری خاتون کی طرف یہ کہتا ہوا بڑھا کہ ’’ہمارے سا منے بولتی ہو۔۔۔ ذرا چہرہ تو کراؤ۔۔۔‘‘ باپردہ خاتون کا نقاب ہٹانے کے لیے بدمعاش نے ہاتھ بڑھایا تو خاتون پیچھے ہٹ گئیں۔ جماعت کے بزرگ کارکن نے فوراً کہا کہ ’’ہم جا رہے ہیں ‘‘ اور بزرگ کارکن نے جن کی عمر ستر کے قریب ہوگی اس مضبوطی سے میرا ہاتھ پکڑا کہ کہیں میں کسی کو مار نہ دوں اور جھگڑا بڑھ نہ جائے۔ بزرگ کارکن نے دونوں خواتین کو گھر چھوڑا اور اس مو قع پر کہا کہ ’’اللہ اس بے ہودگی کا بدلہ ضرور لے گا جنھوں نے پاک دامن عورتوں کے نقاب اترنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ الیکشن ختم ہو گیا اور نتیجہ وہی برآمد ہوا جس کا سب کو یقین تھا۔۔۔ دھونس‘ دھمکی‘ دھاندلی جعلی ووٹوں کے بعد الیکشن ایم کیو ایم نے ’’جیت‘‘ لیا بدمعاشوں کے حوصلے اور بڑھ گئے اس لیے کہ ان کے آگے صرف جماعت کا کارکن کھڑا تھا۔۔۔ سائیکل کا جنازہ ہماری گلی میں بھی آیا ’’جماعتی ٹھاہ‘‘ کے نعرے لگانے کے بعد جلوس چلے گیا۔ دوسرے دن تمام کارکنان پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں۔ حلقے کا اجتماع ہوا‘ مختلف باتیں اور جائزہ ہوا۔۔۔ دعا ہوئی اور ایک بار پھر سب بدی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے کے کام میں مگن ہوگئے۔ ایک دن خبر ملی کہ ایم کیو ایم کے کارکن کی لاش ندی سے ملی ہے اور اس کے صرف چہرے پر گو لیاں ماری گئی ہیں باقی جسم پر کچھ نہیں ہے۔ ہمیں فو راً خو اتین کے ساتھ ہو نے والا واقعہ یاد آیا اور ایم کیو ایم کے کارکن کی لاش دیکھنے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ وہی ہے جس نے خا تون کا نقاب کھینچنے کی کو شش کی تھی۔ بزرگ کارکن اس موقع پر بہت یاد آئے جو الیکشن کے بعد سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے تھے کہ واقعی اللہ کی لا ٹھی بے آواز ہے۔۔۔ دنیا میں بھی برا انجام اور آخرت بھی تباہ۔۔۔ مگر جن لوگوں کو خون کا مزا لگ جائے وہ بھلا کیسے سکون سے بیٹھ سکتے ہیں۔ عوام نے مہاجر کا نعرہ لگا نے والوں کو خوب پذیرائی دی۔ مجھے یاد ہے جب سپیریئر سائنس کالج میں جمعیت سے جھگڑا ہوا تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شاہ فیصل کالونی میں پھیل گئی اور ہر کوئی جماعتیوں سے لڑنے کے لیے سپیریئر کالج کی طرف آنے لگا۔ گوشت بیچنے والا ہاتھ میں بڑا سا چھرا لے کر آیا تو سبزی والا‘ پر چون کی دکان والا‘ گلی محلوں سے نہ جا نے کہاں کہاں سے لوگ آگئے۔۔۔ مہاجر کاز سے اس قدر محبت کے اپنے کاروبار چھوڑ کر لوگ آگئے ۔۔۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہر الیکشن میں اپنی جیب سے ایم کیو ایم کے لیے جھنڈے اور بینرز بنائے‘ 80 فیصد گھروں پر ایم کیو ایم کا جھنڈا ضرور ہوتا اور لوگ الطاف حسین کو قائد تحریک کہتے۔ میں نے کتنے ہی گھروں میں الطاف حسین کی تصاویر دیکھیں۔۔۔ لوگ دیوانے تھے ان تصاویر کے پھر ایک دن الطاف حسین کی تصویر درخت کے پتے پر نظر آئی اس کے بعد مسجد کے صحن میں لگے ماربل میں الطاف حسین کی شبیہ نظرآئی۔ ہمارے ایک دوست بھی اس شبیہ کو دیکھنے گئے۔ لوگوں کی ایک لمبی قطار تھی جو الطاف حسین کی شبیہ دیکھنے آئے تھے۔ میرے دوست سخت گرمی میں ایک سے دو گھنٹے کے بعد مسجد کے صحن میں شبیہ والے ماربل کے پاس پہنچتے ہیں تو ایک فرد وہاں کھڑا کہتا ’’وہ دیکھو الطاف بھائی صاف نظر آرہے ہیں۔‘‘ ہمارے دوست نے اس جملے پر کہا کہ ’‘مجھے تو نظر نہیں آرہے‘‘ جس پر ہمارے دوست کو ایم کیو ایم کے کارکنان پکڑ کے لے گئے اور کہا ’’پھر سے لائن میں لگ جاؤ۔‘‘ اس بار دو گھنٹے بعد نمبر آیا تو ہمارے دوست نے فوراً کہا کہ ’’ہاں ہاں الطاف بھائی نظر آرہے ہیں۔۔۔‘‘ اس لیے کہ اب ان میں مزید لائن میں لگنے کی ہمت نہیں تھی۔ عجیب تماشا تھا الطاف حسین کے لیے بکروں کے صدقہ، آیت کریمہ کا ورد ، مساجد میں دعائیں جہاں شروع بھی الطاف ہو اور ختم بھی الطاف۔۔۔ ہر جگہ‘ ہر دیوار‘ ہر پوسٹر ‘ پتے اور ماربل پر نظر آنے والا الطاف حسین جس کے دَم سے پارٹی چلتی ہو۔۔۔ لوگ گھنٹوں الطاف کی تقریر سنتے اور خوش ہوتے۔۔۔ کامیاب جلسے جلوس کا ہونا۔۔۔ لوگ خوشی خوشی ان جلسوں اور جلوسوں میں جاتے‘ کارکن صرف جیے الطاف کا نعرہ لگاتے جس کے لیے نعرہ لگتا ہو ’’ہم نہ ہوں ہمارے۔۔۔ بعد الطاف‘ الطاف۔۔۔ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔۔۔‘‘ اچانک ایسا کیا ہوتا ہے کہ جان نچھاور کر نے والے وہ تمام لیڈران اور کارکنان الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کر تے ہیں اور تمام لوگ خا موش ہیں۔۔۔ وہ سیکٹر اور یونٹ آفسز جن کی دیواروں پر کوئی مخالف پو سٹر نہیں لگا سکتا تھا۔۔۔ جہاںSHO صاحبان کو مرغا بنے لوگوں نے دیکھا ہے‘ ان سیکٹر اور یو نٹ آفسز گرائے جانے پر کوئی باہر نہیں نکل رہا۔۔۔ کوئی دکاندار‘ سبزی اور گوشت بیچنے والا باہر نہیں آرہا۔۔۔ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ لوگ خاموش ہیں۔۔۔؟ کیو نکہ اللہ کی لاٹھی حرکت میں آچکی ہے مظلوموں کی سسکیاں اور شہیدوں کا لہو رنگ لا رہا ہے۔۔۔ فر عون صفت شخص اپنے انجام کی طرف جارہا ہے۔۔۔ اس کے اپنے ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔۔۔ الطاف حسین کا عزت سے نام لینے والے ’’بھائی‘‘ سے ’’صاحب‘‘ اور اب تو نام لے رہے ہیں۔۔۔ غدار اور ملک دشمن ’’را‘‘ کا ایجنٹ کہہ رہے ہیں اس لیے کہ جو جعلی مینڈیٹ ایم کیو ایم کو دیا گیا تھا اور جس طرح ٹھپے لگا کر ان لوگوں کو جتایا گیا تھا‘ اسلحہ کے زور پر جن لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کو یرغمال بنایا اور زبردستی زکوٰۃ‘ فطرہ‘ چندہ اور قربانی کی کھالیں چھینتا ہو‘ جنھوں نے بندوق کی نوک پر سارے کام کیے ہوں‘ اُن کی محبت تو دل سے نکلنی ہی تھی۔۔۔ اور ان اداروں کے لیے بھی سر کا درد جو بن جائیں وہ بھی تو اس بوجھ کو اپنے سر سے اتارنے کے لیے بے تاب تھے کہ کب مو قع ہاتھ آئے اور ہم یہ بو جھ پھنکیں۔۔۔ حالانکہ اس سے قبل بھی ایم کیوایم کے لوگوں نے میڈیا پر حملہ کیا تھا‘ 12 مئی 2007کو دن بھر میڈیا ہاؤس پر فائرنگ ہو تی رہی‘ لیکن کوئی پولیس‘ رینجرز نہیں پہنچی تھی۔ اس پہلے بھی الطاف حسین قومی اداروں اور پاکستان کو گالی دے چکے تھے لیکن کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آیا تھا اب یہ ادارے انکشاف کر رہے ہیں 22اگست کو جو کچھ ہوا ایک طے شدہ منصو بے کے تحت ہوا ۔۔۔ کیا اس سے پہلے ایم کیو ایم کے قائد زہر نہیں اُگلتے تھے‘ کیا 12 کا منصو بہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا ۔۔۔؟ کہاں کارکنان چھپے تھے۔۔۔ کہاں سے کارکنا ن اسلحہ لہراتے اور چلاتے ہو ئے نکلے تھے۔۔۔ ہمارے ادارے اس پر بھی تحقیق کر لیں تو کراچی کی تباہی کے حوالے سے بہت سے نام اور بھی سا منے آئیں گے۔ 2013 کے الیکشن میں ہمارے ایک کارکن کو‘ جو پو لنگ ایجنٹ تھے‘ اغوا کر لیا گیا‘ میں برابر کے کمرے میں پو لنگ ایجنٹ تھا‘ اسلحہ کے زور پر پو لنگ اسٹیشن کے باہر لے جاکر پھینک دیا گیا باہر کھڑے رینجرز اہلکار سے کہا کہ اندر پو لنگ اسٹیشن میں مسلح لوگ مو جود ہیں اور میرے ساتھ اس طرح کیا گیا ہے تو جواب دیا گیا ہمیں اندر جا نے کی اجازت نہیں ہے مگر خدا کی قدرت کہ اب وہی رینجرز ہر جگہ کارروائی کر رہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں رینجرز نے کراچی میں خوف کی فضا کو ختم کیا ہے۔۔۔ میں کہتا ہوں رینجرز نے نہیں بلکہ اللہ نے اس قوم کو ایک مو قع اور دیا ہے کہ اپنے حال پر رحم کرو۔۔۔ یہ امن شہیدوں کے خون کی مرہون منت قائم ہوا ہے کیو نکہ ایم کیو ایم کو تو کبھی بے نظیر‘ کبھی زرداری تو کبھی مشرف اور کبھی نواز شریف نے پالا ہے ۔۔۔ ان سب کا ایجنڈا ایک تھا اور ہے کہ اسلام پسند کبھی اس سر زمین پر غلبہ نہ پانے پائیں۔۔۔ سب ایم کیو ایم کے ظلم میں برابر کے شریک ہیں‘ سب امریکا سے ڈکٹیشن لیتے ہیں‘ مدرسوں پر بمباری‘ انسانوں کو زندہ جلانے اور ہر طرح کے مظالم پر خا موش رہنے والے ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کر نے کی مذمت کر رہے ہیں کیو نکہ ابھی کھیل ختم نہیں ہوا ہے ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘ نہ کوئی مائنس ہوگا اور نہ ہی کو ئی ایجنڈا تبدیل ہوگا۔۔۔ کسی کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں‘ کو ئی خوش فہمی میں نہ رہے طاغوت اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اسلام پسند اپنی دعوت کا کام جاری رکھیں۔۔۔ اس وقت دعوت کا کام اور تیز کر نے کی ضرورت ہے۔۔۔ لوگوں کو یہ بتا نے کی ضرورت ہے کہ ایک فرد کے پیچھے چل کر تم نے دیکھ لیا جیے بھٹو کے نعرے نے کسی کو کچھ نہیں دیا۔۔۔ پورے پاکستان اور صوبے میں حکمرانی کے باوجود اس قوم کی حالت نہیں بدلی تیسری بار وزیر اعظم بننے والے بھی اب تک قوم کو کچھ نہیں دے سکے پاکستان کی ترقی اور خو ش حالی اور ہر طرح کی دہشت گردی امن وامان صرف اسلام کو تھامنے اور اس کے نفاذ میں ہے۔ جس قرآن نے اپنے ماننے والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو‘ صبر اور نماز سے کام لو اور جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیں تو ان کو مردہ نہ کہو‘‘ یقیناً اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے اور ایک دن آئے گا جب اس سر زمین پر صرف اللہ کا نظام ہوگا جس کے لیے اللہ کے بندے جدوجہد کر رہے ہیں اور شہیدوں کا لہو ضرور رنگ لائے گا۔