آہ۔۔۔ مسلم سجاد

212

عین الف جوکھیو

ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، مسلم سجاد صاحب بھی اب ہم میں نہ رہے۔ آپ وطن عزیز کی ایک اور عظیم شخصیت اور مفکر خرم مراد مرحوم کے بھائی تھے۔ عرصۂ دراز سے کراچی سے بامقصد ہجرت کرکے لاہور سکونت اختیار کیے ہوئے تھے۔ یہ مقصد ماہنامہ ترجمان القرآن کی ادارت تھا، جسے انہوں نے اس خوبی سے نبھایا کہ مسلم سجاد اور ترجمان القرآن ایک دوسرے کا تعارف بن گئے۔ آپ کی نشست و برخاست، اندازِ تکلم، لباس و کردار میں سادگی، وقار اور متانت سموئے ہوئے تھے۔ بناوٹ و تصنع اور ریا کاری سے پاک، نستعلیق اور ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے خانوادے کی خصوصیات کے بموجب خاندانی اوصاف سے کماحقہٗ آراستہ تھے۔ کھرے ہونے کے سبب کئی لوگوں کو ان سے گھبراتے دیکھا۔ بے لاگ، دوٹوک اور نپی تلی بات ان کا خاصہ تھا۔ شستہ طنزیہ مذاق ان پر بہت جچتا تھا۔
راقم کا اکثر لاہور جانا رہتا ہے اور ہمیشہ میزبانی اسلامی نظامتِ تعلیم کے ساتھیوں کے ذمے آتی ہے۔ ترجمان کا دفتر متصل ہونے اور مرحوم سے اُنسیت کے سبب یہ ممکن نہ تھا کہ لاہور جایا جائے اور حضرت سے ملاقات نہ کی جائے۔ آپ کے ساتھ گزری کئی ساعتیں ذہن کے حافظے میں موجود ہیں۔ کئی مباحث آپ کی دانشوری کے باعث سمٹے اور کئی گتھیوں کو سلجھن نصیب ہوئی۔ عمر میں تفاوت اور اتنی عظیم شخصیت ہونے کے باوجود ہمیشہ ہمارے لیے وقت نکالا کرتے، اور جیسے ہی آنے کی اطلاع ملتی محبت سے چائے کی دعوت دیتے۔ فرماتے کہ یہاں والے چائے کا مزا کیا جانیں، دودھ میں تھوڑی پتی ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں چائے پیجیے، آئیے ہم آپ کو چائے پلاتے ہیں۔ ہاتھ پکڑ کر اپنے دفتر لے جاتے اور خود اپنے ہاتھ سے چائے بناکے پیش کرتے۔ نہ جانے ہمارے علاوہ اور کتنے ہوں گے جو یہی احساس دل میں رکھتے ہوں گے کہ مسلم سجاد صاحب ہم سے خصوصی محبت رکھتے ہیں۔ یقین ہے کہ ایسے بے شمار ساتھی ہوں گے جو راقم کی طرح ان کی محبت اور عقیدت سے سرشار، اور ان کے لیے دعاگو ہوں گے۔
ایسی انسان دوست اور نابغۂ روزگار شخصیت اب نہ صرف اجتماعی حلقہ بلکہ عام معاشرے میں بھی عنقا ہوتی جارہی ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ہمیں جنت کے اعلیٰ درجات میں ان کی رفاقت نصیب فرمائے۔ (آصف حسین صدیقی، کراچی)
بھلا آدمی!
مخلص، اصول پسند، قاعدوں ضابطوں میں ڈھلا، مستقل مزاج اور دھن کا پکا۔۔۔ ان سب خوبیوں کو ایک جگہ اکٹھا سوچتا ہوں تو ذہن میں مسلم سجاد صاحب ابھرتے ہیں!
تحریک کے پاس خرم مراد جیسے کئی بڑے لوگ گزرے مگر انہیں مسلم سجاد مرحوم جیسے بھائی دستیاب نہ ہوسکے۔ خرم صاحب کا جو خیر ان شاء اللہ جاری رہے گا اُس میں مسلم سجاد صاحب کا حصہ شامل رہے گا۔
وہ طبعاً کل وقتی اصلاح پسند سے آدمی تھے، پورے خلوص سے یہ چاہتے تھے کہ اردگرد کے سارے معاملات درست ہوجائیں، اور اپنی اس کوشش میں اکثر جزئیات اور گہرائیوں میں اترتے تھے، گاہے یہ جذبہ تلخی تک بھی لے جاتا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میرے پاس تجاویز اور توجیہات پر مشتمل میرے خطوط اور تحریروں کا ایک مجموعہ بن گیا ہے، سوچتا ہوں اسے پرنٹ کرادوں۔
ان کے اردگرد موجود سبھی لوگ گواہی دیں گے کہ اس سب میں ان کا مقصد اخلاص اور اصلاح کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ بے نیاز سے انسان تھے اور اسی طرزِ زندگی کو ساتھ لیے رب کے ہورہے۔
مجھے منصورہ کی تربیت گاہوں میں دیکھ کر کہتے تھے ’’آپ سب سے مہنگے مقرر ہیں‘‘۔ ایک روز خود آڈیٹوریم آن پہنچے کہ آخر پروگرام میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ اب بھلا خاص بات کیا ہونی تھی! اتفاقاً ان ہی دنوں ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی کہیں ورکشاپ اٹینڈ کرلی، رات گئے ان کا فون آیا: ’’بھئی بس اب میں ہار گیا۔ اب تو میرے گھر میں بھی آپ کے سپورٹر پیدا ہوگئے، آپ کسی وقت کھانے پر تشریف لائیے‘‘۔ مجھے ان کی شفقت ہمیشہ حاصل رہی۔
مجھے اپنے بے اندازہ شفیق رب پر پورا یقین ہے کہ وہ اپنے بندے سے نرمی اور آسانی کا معاملہ فرما رہا ہوگا۔ اس نے محبت سے ان کی کوتاہیوں کو حسنات میں بدل دیا ہوگا اور اپنی رحمت کے دامن میں انہیں جگہ عنایت کی ہوگی، ان شاء اللہ۔ (زبیر منصوری، کراچی)
*۔۔۔*۔۔۔*
معروف اسلامی اسکالر، دانشور خرم مراد مرحوم کے چھوٹے بھائی مسلم سجاد بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
2004ء کی بات ہے جب میں نے محترم خرم مراد مرحوم پر کتاب ’’منزلِ مراد‘‘ مکمل کی تو محترم مسلم سجاد مرحوم سے درخواست کی کہ آپ اس پر پیش لفظ لکھ دیں، تو انہوں نے کمالِ شفقت اور مہربانی فرماتے ہوئے نہ صرف پیش لفظ لکھا بلکہ ادارہ منشورات سے اسے چھاپنے میں مدد بھی کی۔ ’منزلِ مراد‘ 2005ء میں ادارہ منشورات نے اہتمام کے ساتھ چھاپی، جس کی اب تک کئی ہزار کاپیاں چھپ چکی ہیں۔ مسلم سجاد مرحوم نہایت سادہ اور نرم طبیعت کے مالک تھے۔
(ڈاکٹر قمر فاروق، لاہور)
*۔۔۔*۔۔۔*
مسلم سجاد مرحوم کا غم
ابھی کچھ دیر قبل جناب مسلم سجاد صاحب، نائب مدیر ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کے انتقال کی خبر ملی تو ایسا لگا کہ میرا کوئی بہت قریبی رشتے دار مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔ ان کا سراپا نگاہوں میں گھوم رہا ہے اور یادیں ہیں کہ امڈی چلی آرہی ہیں۔ میں خود کو سنبھالنے کی کوشش کررہا ہوں، لیکن جذبات ہیں کہ قابو میں نہیں آرہے ہیں۔
جون 2012ء کے دوسرے ہفتے میں محترم مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند کی مصاحبت میں لاہور جانا ہوا تو مسلم صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی، لیکن وہ اتنی محبت، اپنائیت اور بے تکلفی سے ملے کہ لگتا تھا، بہت پرانی ملاقات ہے اور برسوں سے وہ مجھے جانتے ہیں۔ یہ بات صحیح بھی تھی، کیوں کہ ہمارا باہم غائبانہ تعارف برسوں سے تھا۔
اس سفر میں کراچی، حیدرآباد اور اسلام آباد بھی جانا ہوا۔ واپسی میں پھر لاہور میں دو دن قیام رہا۔ اس عرصے میں مسلم صاحب سے بار بار ملاقات ہوتی رہی۔ ترجمان القرآن اور منشورات کے دفتر میں، مسجد میں، مہمان خانے میں، راستے میں چلتے پھرتے۔۔۔ انھوں نے اصرار کرکے گھر پر دعوت بھی کی۔
خاموشی، عزلت نشینی اور مردم بیزاری میرے مزاج کا خاصہ ہے، لیکن مسلم صاحب اسے میرا قصور ماننے کے بجائے اس کا الزام دوسروں پر دھرتے تھے۔ ایک بار کہنے لگے: ’’لوگ آپ کو لِفٹ ہی نہیں دے رہے ہیں۔ آئندہ آپ تنہا آئیے گا، تب آپ کی قاعدے سے عزت افزائی ہوگی‘‘۔
واپسی پر میں نے سفرنامہ لکھا اور محترم امیر جماعت ]ہند[ کے خطابات مرتب کیے، جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ’خطباتِ پاکستان‘ کے نام سے شائع ہوئے تو مسلم صاحب نے یہ کتاب منگوائی اور ’منشورات‘ لاہور سے بھی شائع کی۔
2013ء میں برادر محترم ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی کے ساتھ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ مسلم صاحب کو خبر لگ گئی تو انھوں نے اسلام آباد آکر ملاقات کی اور خاصا وقت ساتھ میں گزارا۔ 2014ء میں ایک بار پھر محترم امیر جماعت کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع عام میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی تو اس موقع پر بھی مسلم صاحب کے ساتھ بارہا ملاقاتیں رہیں۔ مسلم سجاد صاحب میری تحریروں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بہت ہمت افزائی کے کلمات سے نوازتے تھے۔ انھوں نے متعدد بار لکھا کہ میں ترجمان القرآن کے لیے مضامین بھیجوں۔ ماہ نامہ ’زندگی نو‘ نئی دہلی میں ’رسائل و مسائل‘ کالم کے تحت شائع ہونے والے فقہی سوالات کے، میرے بہت سے جوابات انھوں نے ترجمان میں شائع کیے۔ شامی اخوان المسلمون کی خونیں سرگزشت پر مشتمل ہبہ الدباغ کی کتاب 5 منٹ انھوں نے منشورات سے شائع کی۔ میں نے اس کا خلاصہ ایک مضمون کی شکل میں لکھا، جو ’زندگی نو‘ میں شائع ہوا تو اسے منگاکر انھوں نے اردو ڈائجسٹ میں شائع کروایا۔
سہ ماہی ’تحقیقاتِ اسلامی‘ کے بعض مضامین انھیں پسند آتے تو فوراً ان کی میل آتی کہ ان کی ان پیج فائل بھیجیے، انھیں ترجمان میں شائع کرنا ہے۔ ابھی حال میں مشہور اخوانی خاتون رہ نما زینب الغزالہ پر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے ہم نے ایک کتاب شائع کی تو ان کا خط آیا کہ اسے ہم بھی شائع کرنا چاہتے ہیں، اس کی ان پیج فائل بھیج دیجیے۔
مسلم سجاد صاحب سے میری جب بھی ملاقات ہوئی انھوں نے مجھے ایک لفافہ تھمایا، جس میں میرے اُن مضامین کا معاوضہ ہوتا تھا جو وہ ترجمان میں شائع کرتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے بارہا کہا کہ آپ کی بہت سی کتابیں پاکستان میں چھپ رہی ہیں، ان کی رائلٹی کیوں نہیں طلب کرتے؟ اس موضوع پر میری خاموشی انھیں بہت ناگوار گزرتی تھی۔ ایک بار منشورات کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ ہماری مطبوعات میں سے جتنی کتابیں آپ پسند کریں، لے لیں۔ میں نے کچھ کتابیں منتخب کیں تو میرے اصرار کے باوجود ان کی قیمت نہیں لی۔
مسلم صاحب مرحوم انجینئر خرم مراد کے بھائی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی بہت سی تقریریں، دروسِ قرآن، دروسِ حدیث انھوں نے نقل اور مدوّن کرواکے کتابی صورت میں شائع کیے۔ وہ چاہتے تھے کہ مرحوم کی کتابیں ہندوستان میں مرکزی مکتبہ اسلامی شائع کرے۔ انھوں نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ اس کی کوئی رائلٹی وہ اور مرحوم کی بیوہ نہیں چاہتے، لیکن مکتبہ سے ان کے اطمینان کے مطابق رسپانس نہ ملا تو انھوں نے ایک ایگریمنٹ کے مطابق منشورات انڈیا کو حقِ اشاعت دے دیا۔
مسلم صاحب راقم سے کتنا تعلقِ خاطر رکھتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر عید میں وہ ڈاک سے عید کارڈ بھیجتے تھے۔ لاہور سے کوئی بھی آتا، وہ منشورات سے شائع ہونے والی کوئی نئی کتاب ضرور بھیجتے۔ ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے چند سطری خط ضرور لکھتے۔
مسلم صاحب کی وفات سے میں اپنے ایک مشفق و محب سرپرست سے محروم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے، ان کی زلّات سے درگزر فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے، ان کے متعلقین اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے اور تحریکِ اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین (ریاض الاسلام ندوی، انڈیا)
*۔۔۔*۔۔۔*
تحریکِ اسلامی کے مثالی کارکن جناب مسلم سجاد، اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ کام، کام اور بس کام کی عملی تصویر، مثالی دفترِ تحریک اور کام کے خواہش مند۔ 1994ء میں پہلی مرتبہ جب ان کو خط لکھا اور ان کا مفصل جواب میرے لیے ایک اعزاز تھا، پھر وہ موقع کہ دس مہینے میں ان کے ماتحت دفتر میں رہا لیکن ان کے معیار پر پورا نہ اتر سکا اور گھر بھجوا دیا گیا، لیکن ان کی شفقت ہمیشہ رہی۔ میری خوب صورت لکھائی کے وہ مداح تھے، اس لیے دفتر کے بعد انھوں نے مجھے لمحات اور آخری سورتوں کے دروسِ قرآن کے کیسٹ تحریر کرنے کو دیے، اور جب بھی میں حاضر ہوتا خط لکھنے کے لیے مجھے حکم دیتے اور تحریکی مسائل پر گفتگو کرتے۔ دعوت، تنظیم، امتِ مسلمہ کے مسائل پہ ان کی گہری نظر تھی، وہ ہمیشہ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے، سراہتے اور مدد کرتے۔ عمران ظہور غازی، طارق زبیری اور بندہ کے ساتھ خصوصی شفقت اور بے تکلفی کا معاملہ کرتے۔ اللہ ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور ہم سب کو ان جیسی خوبیاں عطا فرمائے۔