حکومتوں کو بھی ایس او پی پر عمل کرنا چاہیے

453

اس امر پر اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے کہ حکومت اور علمائے کرام میں رمضان المبارک کے دوران نماز تراویح، جمعہ کی نمازوں اور عام نمازوں کی ادائیگی کے حوالے سے افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات طے پا گئے اور یہ خدشتہ غلط ثابت ہوا کہ حکومت سعودی عرب اور بعض دیگر ممالک کی طرح نمازوں اور تراویح پر پابندی عاید کر دے گی۔ البتہ بعض شرائط ایسی بھی قبول کر لی گئیں جو محض حکومتوں کی ضد پر مبنی تھیں لیکن علمائے کرام اس حوالے سے بہتر جانتے ہیں کہ انہوں نے ایسی شرائط قبول کیوں کیں ان باتوں پر بحث کے بجائے اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس نیت سے ان قابل اعتراض شرائط کو قبول کیا گیا ہے کہ جلد از جلد اس صورتحال سے نکلنے کی کوشش کی جائے گی تو بہتر ہے۔ ظاہری بات ہے کہ معاہدے پر دستخط اور اعلان کے بعد ساری ذمے داری علما، ائمہ مساجد اور نمازیوں کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ اب نمازیوں، علما اور مساجد کے ذمے داران کو ان شرائط یا ایس او پیز پر عملدرآمد کرانا ہوگا جو بہت مشکل نہیں ہیں۔ نمازوں کے معاملے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مسلمان عام طور پر پاک صاف کپڑے پہن کر نمازوں میں آتے ہیں۔ جمعہ اور تراویح کے لیے بھی نیا اور دھلا ہوا لباس استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا صفائی اور سینی ٹائز کرنے والی شرائط پر پہلے ہی عملدرآمد ہوتا ہے۔ اسی طرح قالین اور دریاں بھی مساجد سے ہٹائی جا چکی ہیں۔ صفوں کے درمیان فاصلہ بھی کوئی مسئلہ نہیں البتہ نمازیوں کے درمیان فاصلہ ان کے منہ پر ماسک کے بارے میں علما نے یقیناً مجبوراً شرط قبول کی ہوگی۔ ان شرائط کو جلد از جلد ختم کرانے کی کوشش کی جائے۔ اور اگر علمائے کرام بھی گہری نظر سے جائزہ لیں تو کورونا وائرس کی حقیقی صورتحال اور میڈیا کے ذریعے اس میں حد درجہ مبالغے کو وہ خود محسوس کر لیں گے۔ حکومتیں خصوصاً سندھ حکومت اس معاملے میں بہت زیادہ چستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے معتدل رویہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ پولیس عوام کو ڈنڈے مارنے کے بجائے لاک ڈائون سے متعلق سمجھائے۔ لیکن صوبائی حکومت کی ماتحت پولیس کی ایس ایچ او اور ڈی ایس پی خواتین اور مرد اہلکاروں نے ڈنڈا ہی اٹھا رکھا ہے۔ ڈبل سواری جرم بنا دی گئی ہے۔ تمام استثنا ختم کر دیے گئے ہیں۔ پولیس والے کبھی مسجدوں میں گھس جاتے ہیں۔ باقاعدہ لائوڈ اسپیکر لے کر خاتون افسر دھمکیاں دیتی نظر آتی ہیں۔ جبکہ الخدمت کے اسپرے کرنے والے کارکنوں کو پکڑ کر تھانے لے جایا جاتا ہے۔ یہ بات بھی سب کو سمجھ میں آنے لگی ہے کہ جو بات وزیراعظم کہیں اور جو موقف اختیار کریں صوبہ سندھ کی حکومت اس کے خلاف ہی اعلان کرے گی اور بیان بازی شروع ہو جائے گی۔ معاملے کے دوسرے پہلو کو دیکھیں تو بڑی اہم بات ہے اور وہ یہ کہ عوام کو کہا جا رہا ہے کہ احتیاط کریں ایس او پیز پر عمل کریں۔ مجمع نہ لگائیں۔ اِدھر اُدھر نہ جائیں گھروں میں رہیں… صفائی کا خیال رکھیں، نمازوں میں احتیاط کریں وغیرہ… لیکن حکومتوں کے لیے بھی تو کوئی ایس او پی جاری ہونا چاہیے۔ ان کو کون بتائے گا کہ جب عوام پریشان ہوں تو ان کی مدد کے لیے غیر ملکی امداد یا بین الاقوامی اداروں کے قرضے کا انتطار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنے پاس موجود فنڈز فوری طور پر جاری کیے جانے چاہئیں۔ اپنے غیر ضروری اخراجات روک کر متاثرین کی مدد کی جانی چاہیے۔ لیکن اس ایس او پی پر عمل نہیں کیا گیا۔ پھر جب امدادی رقوم اور سامان آگیا تو اس پر وفاق اور سندھ میں بحث ہونے لگی۔ جب وفاق اور صوبے کے اجلاس میں ایک افسر نے وزیراعلیٰ کے ساتھ بدتمیزی کردی تو معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا اور تمام سامان ایک ادارے کے حوالے ہو گیا لیکن حیرت انگیز طور پر اس میں بھی گھپلے ہوئے۔ شوکت خانم اسپتال اور دیگر پرائیویٹ اسپتالوں کو امدادی کٹس اور ماسک وغیرہ دے دیئے گئے جس کے بعد انہوں نے بھاری معاوضوں پر ٹیسٹ کرنا شروع کر دیے اور سرکاری اسپتالوں اور ان کا عملہ محروم رہا۔ حکومتوں کو اس کا ایس او پی دیا جانا چاہیے کہ آپ کے ذمے جو کام تھا وہ تو شروع ہی نہیں ہوا اور ملک بھر میں جماعت اسلامی الخدمت اور دیگر فلاحی تنظیموں نے عوام حتیٰ کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں تک کو اور حفاظتی کٹس فراہم کردیں ان اداروں نے اربوں روپے کا سامان، خوراک اور حفاظتی سامان فراہم کیا۔ بلکہ ہزاروں اہم پبلک مقامات پر حفاظتی دوائوں اور کلورین ملے پانی کا اسپرے بھی کردیا۔ لیکن حکومتیں منصوبہ بندی امداد پر حق کا فیصلہ اور ٹائیگر فورس کی رجسٹریشن میں مصروف رہیں پھر اچانک تین دن میں اربوں روپے ٹھکانے لگ گئے۔ خدا کرے یہ درست جگہ گئے ہوں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ حکومتوں کے لیے ایس او پی یہ ہونا چاہیے کہ (1) وفاقی اور صوبائی حکومتیں روزانہ آپس میں مشاورت کریں اور ایک موقف اختیار کریں۔ علمائے کرام تو مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں۔ انہوں نے بنیادی چیز مساجد کی تالا بندی اور نمازوں پر پابندی سے قوم کو بچا لیا۔ کچھ مکرو ہات کو قبول کر لیا اس پر بھی کوئی راستہ نکال لیا جائے گا لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتیں پہلے روز سے کورونا کے بجائے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں۔ انہیں اس سے گریز کرنا چاہیے۔ (2) عوام کو فاصلہ رکھنے، گھروں سے نہ نکلنے اور دیگر امور کی ہدایات دی گئیں۔ حکمرانوں کے لیے ایس او پی یہ ہے کہ وہ ان کٹھن حالات میں کرپشن سے باز آجائیں۔ اب بھی چینی اور گندم مافیا کو بچانے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں۔ (3) حکومت اس کا بھی اہتمام کرے کہ کس طرح کورونا کو رفتہ رفتہ ملک سے ختم کیا جائے۔ (4) پہلے مرحلے پر پورا ملک بند ہے۔ سرحدیں بند ہیں۔ اب بیرون ملک سے جو بھی آرہا ہے باقاعدہ اسکیننگ ہو رہی ہے تو اگلا مرحلہ یہ ہے کہ جو علاقے بری طرح متاثر ہیں صرف انہیں بند کیا جائے پورے ملک کا لاک ڈائون ختم کیا جائے۔ ویسے بھی کئی شعبوں کے کھلنے سے لاک ڈائون تو عملاً ختم ہو چکا ہے۔ (5) ساری دنیا میں باقاعدہ تاریخوں کے ساتھ اطلاع دی جا رہی ہے کہ لاک ڈائون کب تک ختم ہو گا اور اسکول وغیرہ کب کھلیں گے۔ تو پاکستان میں اس پر کیا کام ہوا ہے لوگوں کی تشویش ختم کی جائے۔ سارے مطالبات سارے ایس او پیز عوام کے لیے ہیں حکومتوں کو بھی اپنے ایس او پیز پر عمل کرنا چاہیے۔