موجودہ بحران سے انسانی سرمائے کو ہونے والے نقصانات

294

محمد سمیع گوہر
سمندری طوفان یا زلزلہ کی تباہ کاریوں کے برعکس کورونا وائرس کی وبائی بیماری سے انسانی سرمائے (ہیومن کیپٹل) کو ابھی کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ کاروباری حلقوں کے مطابق فرم سے متعلق ہنر مندوں کی اس وقت کوئی اہمیت نہیں رہتی ہے جب ان کا استعمال کرنے والی فرم کاروبار ی سرگرمیوں سے باہر ہوجاتی ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اگلے برس تک دنیا کے بیش تر ممالک کی پیداوار، اجرت اور معاشی نمو متاثر ہوگی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا کہ جب کووڈ۔2019 پر کنٹرول کرنے کے بعد لوگوں کا اپنے کام پر واپس جانا محفوظ ہو جائے گا تو معیشت کا پہیہ ایک بار پھر ترقی کی جانب گامزن ہو سکے گا۔ ماہرین کا استدلال کہ ہم جہاں سے چلے تھے وہاں سے ایک بار پھر شروع کرسکتے ہیں اور پیداواری عمل میں تیزی لاکر بحران سے پہلے کی سطح پر واپس آسکتے ہیں اور شرح نمو کو پہلے کی طرح آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یہاں تک بتایا جارہا ہے کہ بحران کے بعد معیشت پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط ہوسکے گی، وہ لوگ جنہوں نے خریداری سے ہاتھ اُٹھالیے تھے غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر خریداری شروع کریں گے، کمپنیاں جنہوں نے اپنے توسیعی منصوبے روک دیے تھے وہ اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کردیں گے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ درحقیقت معاشی ماہرین کا بیان کردہ پر جوش منظرنامہ درست نہیں ہو، وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہوںگے کہ غیر متوقع حالات سے نمٹنے کے لیے مالی طور پر ان کی پوزیشن ابھی مستحکم نہیں ہے وہ بچت کرنے پر بھی انحصار کرسکتے ہیں اور سامان تعیش کی خریداری سے باز آجائیں گے، کمپنیاں توسیعی منصوبوں میں سرمایہ کاری اس وقت تک روک سکتی ہیں جب تک انہیں یقین نہ ہوجائے کہ کورونا وائرس واپس آجائے گا۔ ترقی پزیر ممالک امریکا کے مقابلہ میں اس بحران میں داخل ہونے اور نکل جانے کے بعد اپنی برآمدات میں کمی کا سامنا کرسکتے ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ ہوگی کہ عوامی اخراجات نجی اخراجات کے متبادل ہوسکتے ہیں جو اب نظر نہیں آتے ہیں، شرح سود کو بھی بہت نچلی سطح تک لایا جاسکتا ہے۔امریکا جو اس وقت کورونا حملے کی بنا پر سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کررہا ہے اس کو اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کتنے عرصہ تک اپنے مالی نقصان کو برداشت کرسکے گا بشرطیکہ وہ زیادہ احتیاتی بچت اور کمزور سرمایہ کاری کو برداشت کرسکے۔ اس صورتحال میں ترقی پزیر ممالک کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ سال 2010 میں امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے لگائی جانے والی مالی پابندیوں کے خلاف مزاحمت کریں۔
اس بحرانی کیفیت میں سپلائی سائڈ کو پہنچنے والے نقصانات پر باآسانی قابو نہیں پایا جاسکے گا، لامحالہ سپلائی چین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کمپنیوں کو تشکیل نو کے مرحلہ سے گزرنا ہوگا تاکہ زیادہ مہنگی پیداوار نہ حاصل ہو چاہے اس ضمن میں ان کو زیادہ اخراجات ہی نہ کیوں برداشت کرنا پڑیں۔ کمپنیوں کو خود کفالت کے حصول کے لیے دور دراز کے علاقوں کے لیے پیداوار کرنے کے بجائے قریب ترین علاقوں کے لیے پیداوار کرنے
کی جانب راغب ہونا ہوگا۔ لیکن یہ مزدوروں پر پڑنے والے اثرات کے مقابلہ میں ایک چھو ٹا مسئلہ ہوگا کیونکہ وہ بے روزگاری کا مسلسل سامنے کرنے سے خوف زدہ ہوسکتے ہیں۔ ان میں اپنے آجر سے پائیدار تعلق قائم رکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور مزید بے روزگاری کا سامنا کرسکتے ہیں اور ان کی اجرت میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔ نہ صرف اس بحران کے بعد بلکہ ایک طویل عرصہ تک ان کے پوری تندہی سے کام کرنے کے باوجود کم اجرت کا ملنا اس بات کو ظاہر کرے گا کہ ان کی پیداری صلاحیت بھی کم ہوگئی ہے۔ دیگر الفاظ میں جب اس وبائی بیماری سے انسانی سرمائے کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے لیکن زیادہ نقصان ہوجانے کا عنصر نمایاں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا جیسے خوشحال اور طاقت ور ملک میں بے روزگاری کی شرح 25فی صد سے بڑھ چکی ہے دنیا کے دیگر ممالک کے لیے یہ بڑی تشویش کی بات ہوگی اور انسانی سرمائے پر بے روزگاری کے منفی اثرات بڑے ہولناک بھی ہوسکتے ہیں۔
جزوی طور پر یہ ناخوشگوار صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی مزدور کا اپنی کمپنی سے تعلق قائم نہیں رہ پاتا ہے، کمپنی کی خصوصی مہارت کی اس وقت اہمیت ختم ہوجاتی ہے جب وہ بزنس سے آوٹ ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ جب کوئی خاص ہنرمند کارکن ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو کسی دوسرے ادارے سے اتنی ہی صلاحیت کا حامل متبادل کارکن ملنے میں وقت لگتا ہے۔ آج جبکہ پوری دنیا میں ایک اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے امریکا سب سے زیادہ انسانی سرمائے سے محروم جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں حکومتی پالیسی میں مزدور کے مقابلہ میں آجر کے مفادات کا زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ بے روزگاری، مشکل حالات، افسردگی اور دیگر نفسیاتی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں جس سے متاثرہ افراد کی پیداواری صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے اور وہ آجروں کے لیے سود مند نہیں رہتے ہیں۔ 1930 کی دہائی کے دوران اس قسم کی بحرانی کیفیت کے دوران لیبر فورس کی تعداد میں کمی اور خود کشی کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوگیا تھا۔ جب مزدور بار بار بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں منفی رحجانات بڑھنے لگتے ہیں، اور اگر یہ سلسلہ مختصر مدت تک محدود ہو تو جتنی تیزی سے کوئی امید کرسکتا ہے کہ انسانی سرمائے کا نقصان معاشی ترقی اور پیداواری صلاحیت کو پہنچنے والے نقصان اور ان کے ساتھ پیش آنے والی تکالیف کو بھی محدود کیا جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے موجودہ بحران کی طوالت کی بنا پر اس کے اثرات کو کم کرنے میں ہی ہماری کامیابی پر سب سے زیادہ انحصار کرنا ہوگا اور اس میں کامیابی کے لیے معاشرہ کی اہمیت، ہم آہنگی اور ہماری قیادت کی کارکردگی ایک بڑا امتحان ہوگی۔ پاکستان میں جہاں 40 فی صد مزدور ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں لاک ڈاون کے نتیجے میں کارخانے بند ہوجانے سے بے روزگاری کا شکار ہوچکے ہیں گوکہ وفاقی حکومت نے کچھ صنعتی اداروں کو جزوی طور پر ایک ایس او پی مرتب کرکے کام کرنے کی اجازت دے چکی ہے لیکن سندھ میں لاک ڈاون پر سختی کے ساتھ عملدر آمد ہونے کی بنا پر مزدور بے روزگاری کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ کسی کو پتا نہیں لاک ڈاون کب ختم ہوگا لیکن ہمارا انسانی سرمایہ کورونا وائرس کے خاتمہ کے بعد کورونا وائرس سے قبل کی صورتحال کی جانب لوٹ جائے گا کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔