سب سے بڑا حج

230

مرزا ادیب

ذوالنون مصر کے ایک بڑے عالم فاضل درویش تھے۔ صرف مصر کے شہر ہی نہں مصر کے باہر بھی لاکھوں لوگ ان کی بڑی عزت و احترام کرتے تھے۔ ایک بار وہ حج کے لیے گئے۔ حج سے فارغ ہوکر ایک جگہ اکیلے بیٹھے تھے کہ ان کے کانوں میں ایک آواز آئی: ’’اس مرتبہ سب سے پہلے احمد اشکاک کا حج قبول ہوا ہے‘‘۔
ذوالنون نے یہ آواز سنی تو حیران رہ گئے، کیوں کہ وہ احمد اشکاک کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ یہ آدمی مصر میں ایک موچی تھا۔ دن بھر کام کرکے گھر کا خرچ چلاتا تھا۔ یہ موچی حج کے اخراجات کیوں کر پورے کرسکتا تھا! ان میں احمد اشکاک موجود نہیں تھا۔ اس صورت میں جب کہ وہ حج کے لیے آیا ہی نہیں تھا، اس کا حج کیسے قبول ہوگیا تھا! لیکن ذوالنون اس حقیقت سے بھی بہ خوبی واقف تھے کہ جو آواز ان کے کانوں میں آئی ہے وہ کبھی جھوٹ بات نہیں ہوسکی۔
وہ اسی حیرت کی حالت میں واپس مصر چلے آئے اور آتے ہی اپنے ایک مرید کو بھیجا کہ احمد اشکاک کو بلا لائے۔ احمد اشکاک فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔
ذوالنون نے پوچھا: ’’احمد! یہ بتاؤ، کیا اس مرتبہ تم حج پر گئے تھے۔‘‘
احمد اشکاک نے جواب دیا: ’’جناب! آپ کو خبر ہے کہ مصر کے جو لوگ حج کے لیے روانہ ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ کے ساتھ گئے تھے۔‘‘
ذوالنون نے کہا: ’’میں جانتا ہوں تم ان لوگوں میں شامل نہیں تھے۔‘‘
احمد اشکاک نے کہا: ’’جی، میں حج پر نہیں گیا تھا۔‘‘
ذوالنون، احمد اشکاک کو غور سے دیکھ رہے تھے کہ وہ بولا: ’’جناب! آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں، معاملہ کیا ہے؟‘‘
ذوالنون نے اس آواز کے متعلق بتایا تو وہ کہنے لگا: ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں سارا قصہ آپ کو سنادیتا ہوں۔‘‘
ذوالنون نے اسے سب کچھ سنانے کی اجازت دے دی۔ اس پر وہ یوں گویا ہوا: ’’جناب! حج کرنے کی آرزو میرے دل میں اُس وقت پیدا ہوئی جب میری عمر بیس برس بھی نہیں تھی۔ میرے دل نے کہا کہ احمد اشکاک! تُو ایک غریب موچی ہے، صبح سے شام تک کام کرتا ہے، پھر کہیں جاکر کچھ پیسے کماتا ہے۔ حج پر جانے کے لیے آدمی کے پاس اتنی رقم تو ہونی چاہیے کہ وہ راستے کے خرچ پورے کرسکے۔ تُو حج کیسے کرسکتا ہے! یہ خیال چھوڑ دے۔ مگر میں نے دل کی بات رد کردی۔‘‘
ذوالنون نے پوچھا: ’’تم نے دل کی بات رد کرکے کیا کیا؟‘‘
احمد اشکاک کہنے لگا: ’’جناب! میں نے سوچ لیا کہ ہر روز کچھ نہ کچھ جمع کروں گا اور جب اتنی رقم ہوجائے گی جو حج کے لیے کافی ہو تو اپنی یہ آرزو پوری کرلوں گا۔ چناں چہ میں نے زیادہ محنت سے کام شروع کردیا۔ ہر سال جب حج کا موقع آتا تھا تو اپنے جمع کیے ہوئے پیسوں پر نظر ڈالتا تھا، مگر یہ پیسے بہت ہی کم ہوتے تھے، اس طرح چالیس برس گزر گئے۔‘‘
ذوالنون نے پوچھا: ’’تم چالیس برس تک پیسے جمع کرتے رہے؟‘‘
احمد اشکاک نے جواب دیا: ’’جی ہاں، میں نے ایسا ہی کیا۔ اِس سال جب میں نے اپنی جمع کی ہوئی رقم کو دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ یہ اچھی خاصی رقم تھی اور میں اس سے بغیر کسی دقت کے حج کا فریضہ ادا کرسکتا تھا۔‘‘
ذوالنون بولے: ’’لیکن تم حج پر تو نہیں گئے تھے۔‘‘
احمد اشکاک نے کہا: ’’ہاں، میں حج پر نہیں گیا تھا، حج پر روانہ ہونے سے پہلے میرا چھوٹا بیٹا دیر تک گھر سے باہر کھیلتا رہا۔ جس وقت آیا تو اسے سخت بھوک لگی تھی اور گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کی ماں نے کہا: ’’بیٹا! ناصر کے گھر چلا جا، ناصر کی ماں تجھے روٹی اور سالن دے دے گی‘‘۔ میرا بیٹا میرے ہمسائے کے گھر میں چلاگیا اور جب واپس آیا تو بہت مایوس دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ میرا بیٹا بولا: ’’ابا جان! ناصر اور اس کے گھر والے گوشت کھا رہے تھے۔ میں نے مانگا تو دینے سے انکار کردیا‘‘۔ میں نے اپنے بیٹے کی زبانی یہ الفاظ سنے تو سخت غصہ آیا۔ بلند آواز میں کہا: ’’کیسے سنگ دل ہمسائے ہیں۔ خود گوشت کھارہے ہیں اور بھوکا بچہ مانگتا ہے تو اسے ایک بوٹی بھی نہیں دیتے‘‘۔ ناصر کے باپ نے یہ الفاظ سن لیے۔ تھوڑی دیر بعد آیا اور بولا: ’’احمد اشکاک! میں ایک مُردہ بکری کا گوشت تمہارے بیٹے کو کیوں کر دے سکتا تھا! میں اور میرا کنبہ کئی روز سے بھوکے تھے۔ میری پہلی نوکری ختم ہوگئی ہے اور دوسری ابھی ملی نہیں۔ گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں۔ آج میں مُردہ بکری کا گوشت لے آیا تھا، تاکہ کچھ سہارا تو ملے‘‘۔ میں نے کہا: ’’ناصر کے ابا! تم نے اپنے آپ پر اور اپنے ہمسایوں پر ظلم کیا ہے۔ اپنی حالت بتادیتے۔ کیا ہم ایسے بخیل آدمی تھے کہ تمہاری مدد ہی نہ کرتے!‘‘ وہ بولا: ’’یہ میری غیرت نے گوارا نہ کیا‘‘۔ رات کو میں بستر پر سو نہ سکا۔ دل سخت بے چین تھا۔ یہ ساری رات میں نے بڑی بے تابی سے گزاری۔ صبح میں نے وہ ساری رقم جو حج کے لیے جمع کررکھی تھی، صندوق سے نکالی اور ناصر کے ابا کے پاس جاکر کہا: ’’لے میرے بھائی! اس سے گھر کا خرچ چلا‘‘۔ وہ پیسے نہیں لے رہا تھا۔ میں نے اسے لینے پر مجبور کردیا‘ُ۔ یہ کہہ کر احمد اشکاک خاموش ہوگیا۔
ذوالنون نے یہ ساری کہانی سنی تو کہنے لگے: ’’احمد اشکاک! مکے میں جو آواز میرے کانوں میں آئی تھی اس نے بالکل درست کہا تھا۔ اللہ نے سب سے پہلے تیرا حج قبول کیا ہے۔ بے شک تُو نے جس قسم کا حج کیا ہے وہ سارے حاجیوں کے حج سے افضل ہے۔ یہ سب سے بڑا حج ہے۔‘‘