امدادی فنڈز کھانے کے انتظامات

434

سرکار کی کورونا کے حوالے سے چلت پھرت دیکھیں تو پتا نہیں چلتا کہ سرکار چاہتی کیا ہے ۔ کورونا کے نام پر ہر سُو دہشت کا تسلط ہے اورہر ناجائز بات جائز قرار پائی ہے ۔ اب تک پورے ملک میں ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب مریضوں میں کورونا کا ٹیسٹ مثبت بتایا گیا ہے جس میں سے 176 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ دوہزار کے قریب افراد کو اس مرض سے صحتیابی کا سرٹیفکٹ دے دیا گیا ہے ۔ اس مرض کے 80 فیصد سے زاید مریض اپنے ہی گھروں پر قیام پذیر ہیں ، یعنی ان کی حالت تشویش ناک نہیں ہے ۔پورے ملک کے اسپتالوں میں داخل مریضوں کی تعداد 12 سو سے زاید نہیں ہے۔عملی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت کورونا کے مریضوں کے لیے مختص خصوصی وارڈز خالی پڑے ہیں ۔ کورونا کے مریضوں کے لیے خصوصی طورپر فیلڈ اسپتال کراچی کے ایکسپو سینٹر میں بنایا گیاہے جس میں ایک ہزار مریضوں کی گنجائش ہے ، یہ تقریبا خالی ہی پڑا ہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سندھ کے بقیہ شہروں کی بھی ہے ۔ اس کے باوجود سندھ حکومت روز ایک نئے فیلڈ اسپتال اورپہلے سے قائم اسپتالوں میں موجود وارڈوں کو محض کورونا کے لیے مخصوص کرنے کا اعلان کرتی ہے ۔حکومت سندھ سے متاثر ہوکر وفاقی حکومت نے راولپنڈی میں دس ہزار بستروں کا اسپتال بنانے پر کام شروع کردیا ہے۔جب تین کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی میں ایک ہزار بستروں کا فیلڈ اسپتال خالی پڑا ہے تو پھر راولپنڈی جیسے ننھے سے شہر میں دس ہزار بستروں کے اسپتال کا مصرف کیا ہے ۔ موجود کورونا کے لیے اس کے باوجود وفاقی حکومت کا آفتوں سے نمٹنے کے لیے قائم کردہ ادارہ این ڈی ایم اے اور حکومت سندھ دونوں ہی کا کہنا ہے کہ حالات انتہائی خراب ہیں ۔ اس کے لیے یہ دونوں عجیب و غریب قسم کے اقدامات کررہے ہیں ۔ پہلے تو صرف اسپتال ہی قائم کیے جارہے تھے اب این ڈی ایم اے نے مختلف شہروں میں مئی ، جون اور جولائی کے لیے ہوٹل بھی بک کروالیے ہیں ۔ ان ہوٹلوں میں چہار اور پنج ستارہ ہوٹل بھی شامل ہیں ۔ ظاہری بات ہے کہ یہ ہوٹل پورے کے پورے بک کروائے گئے ہوں گے کہ ان ہوٹلوں میں کورونا کے مریضوں کے ہوتے ہوئے مسافراور سیاح تو ٹھیرنے سے رہے ۔مزید یہ کہ آج کل بھی ہوٹل خالی ہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی تو حکومت کوئی بھی عمارت خالی کرا سکتی ہے۔ہوٹلوں کی بکنگ کی عیاشی کس لیے اس کے ساتھ ہی بھاری پیمانے پر خریداریاں بھی جاری ہیں ۔ ان خریداریوں میں گھپلوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 60 ہزار والا سینی ٹائزر گیٹ حکومت سندھ نے 16 لاکھ میں خریدا ہے ۔ حالانکہ اس گیٹ کو طبی ماہرین نے صحت کے لیے خطرناک قرار دیا ہے ۔این ڈی ایم اے کی صورتحال بھی کچھ بہتر نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے کہا جارہا ہے کہ مئی انتہائی خطرناک ہے اور اس میں کورونا کی نئی لہر آئے گی ۔ پاکستان میں کورونا بہت بعد میں آیا ہے اور اس سے پہلے دیگر ممالک میں آچکا تھا ۔ ان ممالک کے تجربوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کچھ وہاں پر نہیں ہوا تو پاکستان میں بھی نہیں ہوگا ۔ کورونا کے انکیوبیشن کا عرصہ 14دن ہے ۔ یعنی اگر کسی شخص میں کورونا کا جرثومہ تھا تو یہ بیماری 14روز کے اندر اندر ظاہر ہوجائے گی اور اگر 14دن میں ظاہر نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ شخص محفوظ ہے ۔ پاکستان میں کورونا کا پہلا مریض 26 فروری کو دریافت ہوا تھا۔ اس طرح سے انکیوبیشن کے عرصے کو گزرے کئی ہفتے گزرچکے ہیں ۔ اگر ابھی تک کورونا نے ملک میں وبائی صورتحال اختیار نہیں کی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان خوش قسمتی سے اس سے محفوظ ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ دسیوں ارب روپے کے فنڈز دیکھ کر ہر ایک کی رال ٹپک رہی ہے ۔ جس طرح سے اس وقت یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ موثر اقدامات کی وجہ سے کورونا کو پھیلنے نہیں دیا گیا ، اسی طرح جولائی میں بھی یہی فرمایا جائے گا کہ حالات تو بہت ہی خراب ہونے تھے ،مگر موثر اقدامات کی وجہ سے حالات خراب نہیں ہونے دیے گئے ۔ کوئی نہیں پوچھے گا کہ یہ دسیوں ارب روپے کہاں ٹھکانے لگادیے گئے ، اس کے بجائے یہ سارے افراد الٹا سینوں پر تمغے سجائے گھوم رہے ہوں گے ۔این ڈی ایم اے نے سیلاب میں جو کارگزاری دکھائی تھی وہ سب کے سامنے ہے ، اس کے باوجودخوف و دہشت کا ماحول پیدا کرکے پھر سے اربوں روپے لوٹنے کا منصوبہ سب کے سامنے رو بہ عمل ہے ۔ اسی طرح سے سندھ حکومت کی کارکردگی سے کون آگاہ نہیں ہے۔ جو پارٹی اپنے آبائی گھر لاڑکانہ کی ترقی کے لیے 90 ارب روپے مختص کرکے ایک پائی خرچ کیے بغیر ڈکار جائے ، اس کے بارے میں مزید کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ دسیوں ارب روپے دن دہاڑے ہڑپ کیے جارہے ہیں ۔ یہ سلسلہ تو برسہا برس سے کھلے عام جاری ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ بھاری فنڈز ہڑپ کرنے کے لیے عوام کی گردن ناپ لی گئی ہے ۔ کوورونا کا جواز گھڑنے کے لیے کراچی جیسے شہر کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا ہے ۔ ہر طرف کاروبار بند ہے ، پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے اور اب تو خواتین ، بزرگوںاور صحافیوں تک کو ڈبل سواری سے منع کردیا گیا ہے ۔ منع تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کو بھی کیا گیا ہے مگر انہیں پوچھتا کون ہے ۔ اب پولیس کی چاندی ہوگئی ہے ۔ چند سو افراد کو روز ڈبل سواری کے نام پر گرفتار کرتی ہے جبکہ ہزاروں افراد سے لاکھو ں روپے رشوت دھڑلے سے وصول کرتی ہے ۔ جو لوگ بھوک سے مجبور ہو کر دکانیں کھول رہے ہیں ، ان سے پولیس موبائلیں فی دکان ہزاروں روپے رشوت وصول کررہی ہیں ۔ سید مراد علی شاہ کی حکومت خود بھی اربوں روپے لوٹ رہی ہے اور ان کی پولیس بھی بھوکے شہریوں کی چھترول کرکے ان پر ڈاکا ڈال رہی ہے ۔ اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ کراچی پاکستان میں نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہے جس میں مراد علی شاہ کے بجائے مودی کی حکومت ہے ۔ زیادہ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جن اداروں یا افراد کو اس صورتحال کا سدباب کرنا چاہیے ، وہی سب سے بڑا نوالہ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں ۔