پاورا سکینڈل کے کھرے بھی چینی گندم چوروں کی طرف

328

ابھی گندم اور چینی اسکینڈل کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ نجی پاور کمپنیوں کا اسکینڈل سامنے آگیا ہے۔ نئے اسکینڈل میں بھی کھُرے ان ہی لوگوں کی طرف جارہے ہیں ، جن کی نشاندہی گندم اور چینی اسکینڈل میں ہوئی تھی ۔ جس طرح سے چینی اور گندم اسکینڈل میں کسی کا کچھ نہیں بگڑا بس چند کے قلمدان آپس میں تبدیل کردیے گئے اور بس ، اسی طرح ہونا ہے تو نجی پاور کمپنیوں کے اسکینڈل میں بھی کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔ بگڑا تو عوام کا ہے جن کی جیبوں سے کئی ارب روپے نکال کر ان چہیتوں میں بانٹ دیے گئے ۔ جب ڈاکو ہی اقتدار کی راہداریوں پر لوگ قابض ہوں تو پھر انصاف نام کو بھی باقی نہیں رہتا ۔ کچھ یہی صورتحال اب پاکستان کی ہوگئی ہے۔ طاقت کے جتنے استعارے ہیں ، وہی ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں ۔بیورکریسی ، فوج اور عدلیہ سے جب صاحبان ریٹائر ہوتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے جو ظاہر ہے کہ تنخواہ سے تو ممکن نہیں ہے ۔ اسی طرح سیاست دانوں کے کچے چٹھے بعد میں کھلتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کس اسکینڈل میں انہوں نے کتنی دولت کمائی ۔ ایسی ہی صورتحال بڑے میڈیا مالکان کی بھی ہے کہ ان کے ادارے کاغذات پر ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں مگر عملی طور پر ان کے اثاثوں میں پراسرار طریقے سے اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے ۔ہمارے ملک میں طاقت کے یہی استعارے ہیں ۔ چونکہ لوٹ مار کے کلب کے یہ سارے ہی بااثر ارکان ہیں ، اس لیے ان کا کبھی کچھ نہیں بگڑتا ۔ صورتحال کی خرابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے باقاعدہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کسٹمز ٹریبونلز میں کرپشن کا بازار گرم ہے ، اس لیے ان ٹریبونلز کے خاتمے پر غور کررہے ہیں ۔ یعنی کرپٹ لوگ اتنے بااثر ہیں کہ انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر وہاں پر کسی صاحب امانت و دیانت فرد کا تقرر نہیں کیا جاسکتا ، اس لیے یہ اہم ادارہ ختم ہی کردیا جائے ۔ جب یہ صورتحال ہو تو پھر معاملات کو درست کرنے کی کوئی امید باقی نہیں بچتی ۔ جب چینی اور گندم اسکینڈل میں وفاقی کابینہ کے ارکان کے نام شامل ہیں تو بیرسٹر فروغ نسیم کس منہ سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی بات کررہے ہیں ۔