جب کراچی پہلی بار کرچی کرچی ہوا

410

عطا محمد تبسم
میں اس وقت مزار قائد کے نزدیک تھا، جب میں نے ایک شدید دھماکے کی آواز سنی، صدر کی جانب سے آنے والی اس مہیب اور ہولناک دھماکے کے ساتھ ہی فضا میں گرد وغبار دھواں اور آگ کے بلند شعلہ نظر آئے۔ اس وقت ہر طرح کے ٹریفک کا رخ صدر کی جانب تھا۔ میں بھی موٹر سائیکل پر اس طرف روانہ ہوگیا۔ میرے پاس کیمرہ بھی تھا۔ یہ 14 جولائی 1987 کی سہ پہر کا وقت تھا۔ صدر کے بازاروں میں افراتفری کا عالم تھا، کسی کو نہیں معلوم تھا کیا ہوا ہے۔ لیکن دھواں، آسمان کی طرف لپکتے شعلے، شور، رونے اور چیخنے کی آوازیں ایسی تھیں کہ دل دہل رہا تھا۔ میں نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور کیمرہ سنبھال کر تصویر بنانا شروع کی تو چند ہی لمحوں میں گھبرا گیا، ایمولینس کا سائرن، پولیس کی موبائلیں، زخمیوں کی آہ وبکا اور ا مدد کے لیے چیخ و پکار ایسی تھی کہ ہوش و حواس لمحوں میں ہی اُڑ گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا بم دھماکا تھا، جو صدر کے بوہری بازار میں ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں 87 افراد تو پہلے ہی دن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 100 سے زائد افراد اس دلخراش واقعے میں زخمی ہوئے، جن میں سے بہت سے اگلے دنوں میں ملک راہی عدم ہوگئے تھے۔ میں ان دنوں ہفت روزہ تکبیر کے لیے کراچی کی ڈائری خرم بدر کے نام سے لکھتا تھا۔
جس وقت دھماکا ہوا تھا صدر بوہری بازار میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ شام کے وقت لوگ خریداری میں مصروف تھے، بہت سے خاندان بچوں سمیت وہاں موجود تھے کہ اچانک زوردار دھماکا ہوا، جس کے بعد ہر طرف لاشیں اور زخمی بکھرے پڑے تھے۔ بہت سے خاندان پل بھر میں بکھر گئے تھے۔ کوئی اپنے بچوں کو اور کوئی اپنے ماں باپ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے کھلونے خرید رہا تھا تو کوئی ماں اپنے بچوں کے اسکول کے لیے کتابیں اور بستے خریدنے آئی ہوئی تھی، سب لوگ اپنی اپنی پسند کی چیزیں خریدنے میں مصروف تھے، ہر طرف گہما گہمی تھی کسے پتا تھا کہ اب سے کچھ دیر بعد یہاں موت کا فرشتہ پر پھیلائے کھڑا ہوگا۔ بازار میں کھڑی گاڑیوں کے اندر سے شعلے بلند ہورہے تھے۔ اب لوگوں کے مرنے کی اطلاعات اور ان کی لاشیں ایمبولینس میں لیجائی جارہی تھیں۔ اچانک درجنوں افراد کی موت اور سیکڑوں لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ میں وہاں سے جناح اسپتال کی جانب چلا گیا، یہاں ہر طرف زخمی ہی زخمی افراد تھے، کسی کا ہاتھ، تو کسی کا پیر غائب، بستر کہاں تھے، لوگ کوریڈور، اور مختلف جگہوں پر پڑے تھے، ڈرپ ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تھی، ہر طرف خون بہہ رہا تھا، ہولناک مناظر تھے۔ میں نے بہت سی تصاویر بنائیں، اور پھر اپنی رہائش ون بی لالہ زار کی جانب روانہ ہوگیا۔
یہ اسٹوری مجھے رات ہی مکمل کرنی تھی، اگلے دن پرچہ پریس میں جانا تھا۔ تکبیر کا دفتر ان دنوں نامکو سینٹر کیمبل اسٹریٹ پر تھا۔ رات کے آخری پہر میں نے یہ اسٹوری لکھی، اور صبح تصاویر کے ساتھ محمد صلاح الدین صاحب کے حوالے کردی۔ یہ تکبیر کی ٹائٹل اسٹوری تھی۔ جسے پڑھ کر بہت سے لوگ رو دیے تھے۔ لکھنے کو تو میں نے یہ اسٹوری لکھ دی، لیکن پھر تین دن تک میں سو نہ سکا، یہ ہولناک مناظر اور زخمیوں کی آہ وبکا، اور لاشیں مجھے ہر وقت نظر آتیں۔ میری عمر اس وقت 34 برس ہوگی، میں یہ صدمہ جھیل تو گیا، لیکن پھر میں نے آئندہ اس طرح کی رپورٹنگ کبھی نہ کی۔ 3 دن تک شہر میں سوگ کا سماں تھا۔ کراچی کے ہر علاقے سے جنازے اُٹھ رہے تھے، ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اُٹھائے جا رہے تھے۔ پورا شہر سوگ میں ڈوبا ہوا تھا، ہر طرف سوگواری کی کیفیت طاری تھی۔ ہر آنکھ اس اشکبار تھی۔ جنازوں میں لوگ بہت جذبات میں نظر آرہے تھے۔ کراچی اس دن پہلی بار کرچی کرچی ہوا تھا، اس کے بعد تو کراچی کے جسم پر لگنے والے زخموں کا شمار ہی نہ رہا۔ کچھ لوگ اسے شہر میں اقتدار کی جنگ، اور کچھ اسے افغانستان میں پاکستان کی جنگ والی پالیسی میں شرکت کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس واقعے سے قبل کراچی اس بات پر آتش فشاں بنا ہوا تھا کہ میئر کراچی عبدالستار افغانی نے کراچی بلدیہ کی جانب سے موٹر وہیکل ٹیکس وصولی کا حق مانگا تھا۔ حکومت سندھ نے بلدیہ سے وہیکل ٹیکس لینے کا اعلان کیا تو 3 فروری 1987ء کو بلدیہ کراچی نے اسے مسترد کر دیا اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، جس کے بعد میئر کراچی عبدالستار افغانی کو میئر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ کونسل توڑ دی گئی۔ کراچی کے اس بم دھماکے میں یہ مطالبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔