نیم دیہی نیم شہری بستیاں

417

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دیہات کے اپنے بے پناہ مسائل ہیں اور ان میں سے تو بعض مسئلے ایسے ہیں جو معاشرتی لحاظ سے ناسور کی صورت اختیار کر چکے ہیں جن پر بحث کا نہ تو یہ موقع ہے اور نہ ہی اس موقعے پر اس کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح شہروں میں رہنے والے بعض حوالوں سے تو یقینا خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں لیکن یہاں کے اپنے بے شمار مسائل ہیں جن کا شور مختلف حوالوں سے ہم روز سنتے رہتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد ہمارے معزز قارئین کے لیے یہ بات یقینا باعث حیرت ہوگی کہ ان دونوں زندگیوں کے درمیان ایک نئی زندگی جسے معاشرتی لحاظ سے فی الحال چونکہ کوئی نام نہیں دیا گیا کیونکہ یہ زندگی ابھی ارتقائی مراحل میں ہے اس لیے اسے نہ تو دیہی اور نہ ہی شہری زندگی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس نوزائیدہ طبقے کی دو بڑی واضح مثالیں ہیں جن میں ایک طبقہ ان آبادیوں پر مشتمل ہے جو کبھی عرف عام میں دیہات کہلائے جاتے تھے اور اب ان آبادیوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنی social encroachment ہوچکی ہے کہ یہ علاقے اب نہ تو مکمل طور پر دیہی کہلائے جانے کے مستحق ہیں اور نہ ہی انہیں شہری علاقے قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ان میں شہروں کی چند سہولتیں مثلاً بجلی، گیس، چھوٹی موٹی سڑکیں اور پینے کاپانی وغیرہ ظاہراً تو پہنچائی گئی ہیں لیکن اس تلخ حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ یہاں بچھائی گئی بجلی کی تاروں میں بجلی کبھی کبھار ہی آتی ہے۔ کہنے کو تو یہاں گیس کے کنکشن بھی دیے گئے ہیں لیکن یہاں گیس صرف یا تو گرمیوں میں آتی ہے اور یا پھر سردیوں کے ان اوقات میں جب اس کے استعمال کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہاں کہنے کو تو کچھ نہ کچھ سڑکیں بھی تعمیر کی گئی ہیں لیکن ان کی ٹوٹ پھوٹ اور ان پر تھوک کے حساب سے بنائے گئے اسپیڈ بریکرز کی جانب کبھی کسی نے مڑ کر بھی دوبارہ دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔ پینے کے پانی کے جو پائپ بیس پچیس سال قبل بچھائے گئے تھے وہ جگہ جگہ سے پھٹ کر اتنے بوسیدہ اور زنگ آلود ہو چکے ہیں کہ ان میں گندی نالیوں اور گٹروں کا پانی مکس ہوکر طرح طرح کے امراض گھر گھر بانٹ رہے ہیں۔ ان بستیوں میں کہنے کو بعض سرکاری اور کچھ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی مل جاتے ہیں لیکن ان تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار کیا ہے اس کا نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ یہاں طبی سہولتوں کا یہ حال ہے کہ جن نیم حکیموں کو شہروں میں پریکٹس کی اجازت نہیں ملتی انہیں یہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے کیونکہ یہاں ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان علاقوں میں چونکہ کوئی بھی چیز ہمیں درست حالت میں نظر نہیں آتی اس لیے اگر ان بستیوں کے لیے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کھل سیدھی والا محاورہ استعمال کیا جائے تو شاید اس پر نہ تو اونٹ بیچارے کو کوئی اعتراض ہو گا اور نہ ہی ان علاقوں میں رہنے والے انسان نما مخلوق کو کوئی شکایت ہوگی۔
دراصل یہ وہ بستیاں ہیں جہاں نہ تو شہری سہولتیں دستیاب ہیں اور نہ ہی یہاں کے مکین دیہی زندگی کے فیوض وبرکات سے مستفید ہو رہے ہیں، یہاں کے کھیت کھلیان، کچی پکی آبادیوں میں سمٹ چکے ہیں۔ یہاں اب نہ تو باغات ملتے ہیں اور نہ ہی دیہی زندگی کے ساتھ جڑے چوپالوں، حجروں کی رونقیں ملتی ہیں۔ یہاں اب نہ تو ڈور ڈنگر دوربین میں بھی نظر آتے ہیں اور نہ ہی کھلی فضائوں میںصبح سویرے تازہ ہوا کے جھونکے دستیاب ہیں۔ یہاں کے کھیل کود کے میدان قبضہ مافیا کی نظر ہو چکے ہیں جب کہ یہاں کے گلی کوچے جو کچے ہونے کے باوجود خاصے چوڑے ہوا کرتے تھے پختگی اور ترقی کے نام پر اتنے تنگ وتاریک ہو چکے ہیں کہ یہاں آئے روز راستہ دینے اور لینے کے نام پر توتکار اور لڑائی جھگڑے روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہاں اب تانگوں کی جگہ رکشوں، موٹر سائیکلوں اور بیل وگدھا گاڑیوں کی جگہ چنگ چیوں اور چھوٹی ٹریکٹر ٹرالیوں نے لے لی ہے۔ ان علاقوں کا ماحول چونکہ نیم دیہی اور نیم شہری ہے لہٰذا اس مکسچر نما معاشرتی ماحول کا اثر یہاں بسنے والوں کی عمومی زندگی اور ان کے رویوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی صورت میں باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں کے مکینوں میں ہمیں نہ تو خالص دیہاتی پن کی خصوصیات مثلاً سانجھا پن، سادگی اور ہمدردی وغمگساری کے جزبات نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان میں شہریوں جیسا رکھ رکھائو، سماجی شعور، اعلیٰ تعلیمی اوصاف، اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت اور کسی حدتک خود غرضانہ طرزعمل جیسی عادتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ بستیاں چونکہ زیادہ تر شہروں کے مضافاتی دیہی علاقوں یا پھر ہائوسنگ اسکیموں کے نام پردوچار سہولتیں دے کر راتوں رات معرض وجود میں آنے والی آبادیوں جن میں مختلف علاقوں خاص کر دور دراز کے مختلف معاشی اور معاشرتی پس منظر کے حامل نودولتیوں یا پھر دیہات سے روزگار اور اپنی نئی نسلوں کو شہری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے شہروں کی جانب عارضی بنیادوں پر ہجرت کرنے والوں کی اکثریت ہوتی ہے اس لیے درج بالا سطور میں جس نئے سماجی طبقے اور بستیوںکی نشاندہی کی گئی ہے ان کا تعلق بالعموم یا تو متذکرہ ہائوسنگ سوسائٹیوں سے ہے اور یا پھر یہ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کے قرب وجوار میں واقع وہ پرانے دیہاتی علاقے ہیں جن کی جغرافیائی حدود تو شہروں کے مضافاتی علاقوں تک پہنچ چکی ہیں لیکن ان ہر دو علاقوں کے مکینوں کی زندگیوں، یہاں کی سہولتیں اور رویوں حتیٰ کہ ان کی ذہنی سطح اور سماجی رکھ رکھائو میں پائے جانے والے زمین آسمان کے تفاوت کو ہر کوئی یقینا باآسانی دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے لہٰذا اس خلیج کا خاتمہ ہی دراصل معاشرے اور متعلقہ اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔