ہمارا وزیر اعظم جنابِ عمران خان کی ہر پالیسی سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے، اختلاف بھی رہتا ہے اور اتفاق بھی ہوتا ہے، کیونکہ ہماری ترجیح اسلام اور پاکستان ہے۔ تاہم حالیہ کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈائون کے حوالے سے میرے نزدیک اُن کا موقف درست ہے، اُن کا کہنا یہ ہے: ’’ہمارے ہاں ابھی حالات اس حد تک بدتر نہیں ہوئے کہ مکمل لاک ڈائون کیا جائے اور نہ ہماری معیشت اس کی متحمل ہوسکتی ہے‘‘، انہوں نے قومی وسائل کے مطابق بہت بڑے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اور مستحقین تک پہنچانے کا کافی حد تک شفافیت کا بھی لحاظ رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود زیادہ عرصے تک قوم کے غالب طبقے کو وظیفہ خور بنا کر ملک کو نہیں چلایا جاسکتا، کیونکہ ہماری معیشت میں اتنی استعداد نہیں ہے۔
نہ ہمارے پاس بے پناہ وسائل ہیں، نہ استعداد ہے، نہ مطلوبہ تعداد میں معیاری ٹیسٹنگ کٹس ہیں، نہ میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے ہر فرد کے لیے ضرورت کے مطابق قومی یا عالمی معیار کا تحفظاتی لباس دستیاب ہے، وینٹی لیٹر ز کی قلت تو ناقابلِ تصور ہے، اندرونی وبیرونی وسائل سے تاحال جتنے وینٹی لیٹر زدستیاب ہیں، وہ بائیس کروڑ کی آبادی کے لیے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ اس وقت حال یہ ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا ان تمام اشیاء کی قلت کا شکار ہے، صدر ٹرمپ نے ڈیفنس رول کے تحت جبراً جنرل موٹرز کمپنی کو تمام کام روک کر ایک لاکھ وینٹی لیٹر بنانے کا حکم جاری کیا ہے۔ وقتاً فوقتاً سی این این دیکھنے سے یہ تمام معلومات دستیاب ہوجاتی ہیں، گزشتہ دنوں ٹرمپ نے کہا: ’’اگر ہم اموات کی تعداد ایک لاکھ تک محدود کرسکیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی‘‘۔ چین نے کمالِ مہارت، کثیر وسائل، استعداد اور وافر پیشہ ورانہ عملے کی دستیابی کی بنا پر کورونا وائرس پر مکمل طور پر تو نہیں، تاہم کسی حد تک قابو پایا ہے۔ اُس وقت ٹرمپ چین پر فقرے کس رہے تھے اور اب امریکی ان کو ملامت کر رہے ہیں کہ انہوں نے یکسوئی کے ساتھ آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنے کے بجائے وقت غیر سنجیدہ باتوں میںضائع کردیا۔
ہمیں باہر سے تاحال قرض کی شکل میں جو امداد آئی ہے یا وعدہ کیا گیا ہے، وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے اور اپنے وسائل اور تحدیدات کو ہم خود جانتے ہیں۔ اگریہ صورتِ حال طول اختیار کرتی ہے تو بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے سیلاب کا مقابلہ کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ کورونا زدگان کا تحفظ کرنا ہمارے لیے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہوجائے گا۔ سرِ دست ہمارا میڈیا وزیرِ اعظم کی پالیسی پر تنقید کر رہا ہے۔ اس کے برعکس وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مکمل لاک ڈائون کا اعلان کرنے میں پہل کی، زیادہ پھرتی دکھائی، فعّالیت کا مظاہرہ کیا، اس لیے میڈیا ان کی شان میں رطب اللّسان ہے، یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ پہلی باروہ حسنِ کارکردگی میں ٹاپ پوزیشن پر آچکے ہیں۔ ہم سندھ کے رہنے والے ہیں، اس لیے ہماری ذمے داری ہے کہ حتی الامکان سندھ حکومت کا تعاون کریں اور اس کی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں مقدور بھر مدد کریں۔ لیکن کیا اس لاک ڈائون سے ہم نے سارے مقاصد حاصل کرلیے، اگر 30اپریل کے بعد لاک ڈائون مکمل طور پر کھلتا ہے تو کیفیت کیا ہوگی۔ جب بڑے شہروں اور صوبوں کے درمیان آمد ورفت کھلے گی اور بڑے پیمانے پر لوگ کراچی کا رخ کریں گے تو اُن کی ٹیسٹنگ اور چیکنگ کا انتظام کیا ہوگا، اس کا کوئی بھی مثبَت اور امید افزا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ امریکا نے ابھی تک سب سے زیادہ متاثرہ ریاست اور شہر نیویارک کو بھی مکمل طور پر لاک ڈائون نہیں کیا، امریکا میں بھی لاک ڈائون کے خلاف مزاحمت سامنے آرہی ہے۔
ہانگ کانگ اگرچہ چین کا حصہ ہے، لیکن وہ اسپیشل اسٹیٹس رکھتا ہے، اسی طرح سنگا پور اور تائیوان تین ایسے ممالک ہیں کہ مکمل لاک ڈائون اُن کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ ان کا ایریا اور آبادی کم ہے، وہ صنعتی اور سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں، ان کے پاس استعداد موجود ہے، ماہرین کی کمی نہیں ہے، طبی آلات کے اعتبار سے وہ کسی بھی مشکل پر کم از کم وقت میں قابو پاسکتے ہیں، ان کے لیے ممکن ہے کہ لاک ڈائون کے دوران ایک ایک شہری کا ٹیسٹ کریں، مریضوں کو تلاش کر کے الگ کریں، ان کو عالمی معیار کے آئسولیشن یونٹس میں منتقل کریں اور مکمل بحالی کے بعد انہیں معاشرے میں واپس آنے دیں، کسی اور کے پاس اپنی آبادی کے تناسب سے اتنی استعداد کا ہمیں اندازہ نہیں ہے، اس وقت امریکا، اٹلی، اسپین، فرانس، برطانیہ اور دیگر یورپین ممالک شدید متاثر ہیں اور یہ سب ترقی یافتہ ممالک ہیں۔
یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ ماضی میں اس طرح کی وبائوں سے ترقی پزیر ممالک زیادہ متاثر ہوتے تھے، لیکن کورونا وائرس ایک ایسی وبا ہے جس نے سب سے پہلے علمی وفنی معلومات کے حامل، سازوسامان اور وسائل سے آراستہ اور اعلیٰ استعداد کے حامل ترقی یافتہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، یہ اللہ کی شان ہے، قدرت سبق دینا چاہے تو اس کے انداز ایسے بھی ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ’’خدائی‘‘ کے باطل زعم میں ایک عرصے سے اس کام پر لگے ہوئے تھے کہ موت پر قابو پالیں گے اور دائمی حیات کا راز پالیں گے، لیکن: ’’تدبیر کُند بندہ، تقدیر زند خندہ‘‘۔
ہمارے ہاں معیشت جمود کا شکار ہے، گندم کی کٹائی اور تھریشنگ کا سیزن شروع ہوچکا ہے، یہ پنجاب سے ہوتا ہوا جون کے اوائل تک بالائی بارانی علاقوں تک پھیل جائے گا، گندم کی پیداوار پر ہماری خوراک کا انحصار ہے، سو مکمل طور پر ان ایام میں معیشت کو کیسے معطل رکھ سکتے ہیں۔ ہم من حیث القوم ’’فرقۂ ملامتیہ‘‘ ہیں اور ایک دوسرے کی خامیاں تلاش کرنے اور ملامت کرنے میں لگے رہتے ہیں، ہم مل جل کر گہرا غورو خوض اور بحث وتمحیص کر کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی روایت نہیں رکھتے۔ حزبِ اقتدار واختلاف ایک دوسرے سے ملنے کے روادار نہیں، ایک دوسرے کی دیانت اور نیک نیتی پر اعتماد نہیں، پس فکری اور سیاسی طور پر منقسم قومیں آفتوں اور وبائوں کا کامیابی سے مقابلہ نہیں کرپاتیں۔ کم از کم اس دور میں تو ایک دوسرے کی تضحیک وتحقیر اور اہانت کے شعار کو ترک کردینا چاہیے تھا، ہمیں ایک قوم بن کر جسدِ واحد کی طرح نظر آنا چاہیے تھا، لیکن صد افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔
ہم اس انتظار میں رہتے ہیں کہ فریقِ مخالف کو زَک پہنچائیں، اُن کی اہانت کر کے لطف اٹھائیں، سو جملہ بازی، جلی کٹی سنانا ہمارا شعار بن کر رہ گیا ہے۔ دل سے سب کا اتفاق ہے کہ نیب کا قانون بہت سی خامیوں کا مجموعہ ہے، اس میں شفّاف عدل فراہم کرنے کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں ہے اور اب تو اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے بھی شرعی بنیادوں پر اس کی جوہری خامیوں کی نشاندہی کردی ہے، لیکن ہر دور کا صاحبِ اقتدار اس انتظار میں رہتا ہے کہ مخالفین کی رگڑائی ہوجائے، پھر دیکھیں گے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس کی باری آجاتی ہے، سو یہ گھن چکر ہے۔
ہم نے صاحبانِ اقتدار سے عرض کی: ’’اسباب کی دنیا میں کورونا وائرس پر فتح پانا ہمارے لیے مشکل ترین ہے، ہم عاجز بندوں کے لیے تو ایک ہی راستہ اور ایک ہی سہارا ہے کہ عاجز وبے بس اور ناتواں بن کر اپنے رب ذوالجلال کی بارگاہ میں روئیں، گڑگڑائیں، آہ وزاری کریں، اس کی طرف رجوع کریں، توبہ واستغفار کریں، اس کی رحیمی اور کریمی کو اپنی جانب متوجہ کریں، اس کے حبیبِ مکرمؐ کی ذاتِ گرامی کو اس کے حضور وسیلۂ شفاعت بنائیں، قرآن کی تعلیمات کے مطابق صبر وصلوٰۃ کو نصرتِ الٰہی کے نزول کا ذریعہ بنائیں، رجوع الی اللہ کریں، معصیتوں کی دنیا کو چھوڑ کر اطاعت واتباع کے جادۂ مستقیم پر گامزن ہوں، مسجدیں آباد ہوں‘‘، لیکن ہمارے میڈیا میں چونکہ زیادہ تر لبرل بیٹھے ہیں، ان کا ایمان اسباب کو پیدا کرنے والے ربِّ ذوالجلال کی ذات سے زیادہ نفسِ اسباب پر ہے، وہ ہم جیسے لوگوں کا مذاق اڑاکر لطف اندوز ہوتے ہیں، ہم ان کے شکر گزار ہیں اور ان کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(1)’’تم اپنے ربّ سے معافی مانگو، بے شک وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا ہے، وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا اور اموال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات اگائے گا اور دریا بہائے گا، (نوح: 10-12)‘‘۔ (2) ’’وہی لوگ مومن کامل ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل دہل جاتے ہیں اور جب اُن کے سامنے اللہ کی آیتیں پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو مزید مضبوط کردیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر ہی توکل کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، وہی لوگ سچّے پکّے مومن ہیں، اُن کے لیے اُن کے ربّ کے پاس بلند درجات ہیں اور بخشش ہے اور باعزت روزی ہے، (الانفال: 2-4)‘‘۔ (3) ’’اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے جس کے مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، بار بار دہرائے جاتے ہیں، (جنہیں سن کر) اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کے وقت نرم ہوجاتے ہیں، یہ کتاب اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس کے ذریعے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کردے، اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے، (الزمر: 23)‘‘۔
اب بتائیے! یہ تضرّع، آہ وزاری، گڑگڑانا، ندامت کے آنسو بہانا، ہچکیاں باندھ کر اور رو رو کر اس کی رحمت کو پکارنا، اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اللہ کے حضور شرمسار ہونا اور توبہ تائب ہونا مسجد میں مؤثر ہوسکتا ہے یا کامن روم میں ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر، ذرا سوچیے! اس کی شان تو یہ ہے: ’’وہ گناہوں کا بخشنے والا ہے، توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا ہے، بڑی داد ودہش والا ہے، اسی کی جانب لوٹ کر جانا ہے، (المومن: 2)‘‘۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ کورونا وائرس کی وبا کا خاتمہ کب تک ہوپائے گا، یہ ہفتوں کی بات ہے یا مہینوں کی بات ہے، اس سوال کا قطعی جواب دینے سے امریکا سمیت پوری ترقی یافتہ دنیابالکل عاجز ہے، غیب کا علم اللہ کے پاس ہے۔