میر قاسم ۔ہم شرمندہ ہیں

152

ڈھاکا سے خبر آئی ہے کہ بنگلا دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی کی اپیل مسترد کردی ہے۔ اب صرف صدر مملکت سے رحم کی اپیل کا مرحلہ باقی ہے جس کے حوالے سے میر قاسم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رحم کی اپیل نہیں کریں گے۔ اور جلد ہی جنت میں اپنے ساتھیوں سے جاملیں گے۔
میر قاسم سے پہلے بھی جماعت اسلامی بنگلا دیش کے متعدد رہنما پھانسی کا پھندا چوم کر اپنی شہادت کی آرزو پوری کرچکے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہرقسم کے دباؤ اور لالچ سے بے نیاز ہو کر عدالتوں میں یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط ہونے اور پلٹن میدان میں پاکستانی پرچم لپیٹے جانے تک یہ خطہ زمین پاکستان تھا۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان نے پاکستانی ریاست اور فوج کی حمایت کرکے کوئی جرم نہیں کیا، بلکہ اپنے وطن سے محبت اور وفاداری کا حق ادا کیا ہے۔ جس پر انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف ہزاروں صفحات کی فرد جرم کا بیش تر حصہ ان تقریروں، تصویروں اور بیانات پر مشتمل ہے جن میں جماعت اسلامی کے کارکنان پاکستان کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے حق میں تقریریں کررہے ہیں۔ مکتی باہنی کے خلاف عوامی شعور اجاگر کررہے ہیں اور دفاع پاکستان کے لیے پاکستانی فوج کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کہیں البدر کے نام پر۔ کہیں الشمس کے نام پر اور کہیں محض گمنام سپاہی کے طور پر ۔
ان رہنماؤں نے کمال جرأت سے عدالتوں میں اس موقف کا اظہار کیا کہ وہ اب بنگلا دیشی ہیں اور اس کے آئین کے پابند ہیں۔ انہوں نے اس آئین کے تحت الیکشن لڑے۔ کامیاب ہوئے اور بنگلا دیش کے تحفظ کی قسم کھائی۔ اگر مستقبل میں بنگلا دیش کے کچھ شہری باغی ہوجائیں۔ انہیں بیرونی امداد حاصل ہوجائے وہ نئی مکتی باہنی بنالیں اور بنگلا دیش کی ریاست سے بغاوت کردیں تو بنگلا دیش آرمی کیا کرے گی۔ عدالتیں کیا کریں گی۔ ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ باغیوں کی حمایت یا ملکی سالمیت کی جنگ۔ہم اس وقت یقیناًبنگلا دیش کے سپاہی کا کردار ادا کریں گے۔ چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ لیکن جماعت اسلامی سے خوفزدہ حسینہ واجد کی نام نہاد عدالتوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ ان عدالتوں کو جنگی جرائم کی سماعت کے ٹریبونل قرار دینے کے عمل کو بین الاقوامی اداروں نے مسلسل ہدف تنقید بنایا ہے۔ لیکن بنگلا دیش کی حکومت نے ان رہنماؤں کی پاکستان سے وفاداری کی سزا دینے کے لیے فرد ہائے جرم میں زنا بالجبر اور قتل جیسے الزامات شامل کرکے مہذب دنیا کو فریب دینے کی کوشش کی ہے جو خود ایک جرم ہے۔
مجھے بنگلا دیشی حکمرانوں سے نہ امید تھی نہ شکایت ہے۔ مجھے تو اپنے ساتھیوں کی شہادت کا افسوس بھی نہیں ہے۔ تیری میری آرزو شہادت شہادت کے نعرے لگانے والوں کو اپنے کسی رفیق کے سرپر شہادت کا تاج سجنے کا افسوس ہوبھی کیسے سکتا ہے۔
جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنماؤں پر تو اللہ کا فضل ہی نہیں ہوا، ذوالفضل ہوا ہے۔ رحمت ہی نہیں ملی ۔ ذوالرحمتہ کا مقام ملا ہے۔ یہ لوگ 1971کی بغاوت کے دوران کسی بھی نامعلوم دہشت گرد کا نشانہ بن سکتے تھے۔ مرگ انبوہ میں کون کس کو یاد رکھتا ہے۔ کون کس کا ماتم کرتا ہے۔
لیکن رب کائنات نے انہیں محفوظ رکھا اور ان سے طویل وقت تک کام لیا۔ پروفیسر غلام اعظم 7نومبر 1922کو پیدا ہوئے تھے۔ 1971میں وہ مشرقی پاکستان کے امیر تھے۔ سید مودودی کی زندگی میں ان کے دو نائبوں میں سے ایک۔ اس وقت ان کی عمر 49سال تھی ۔ اور وہ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کی جہد مسلسل میں تقریباً نصف صدی گزار چکے تھے۔ رب عظیم نے انہیں مزید مہلت دی۔ مشکلات سے گزارا۔ انہوں نے جلاوطنی کے دکھ سہے۔ پھر اللہ نے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ بنگلا دیش میں ان کی شہریت بحال ہوئی اور جماعت اسلامی بھی۔ پھر انہوں نے جماعت اسلامی کو پارلیمنٹ میں داخل ہوتے اور وزارتوں کا حلف اٹھاتے دیکھا۔ ایک مرجھاتے ہوئے پودے کو برگ و بار لاتے دیکھا۔ پھر اللہ نے انہیں حضرت یوسف کی سنت زنداں پورا کرنے لیے چنا۔ جہاں23اکتوبر2014کو وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ اس عمر میں تو لوگ ہسپتالوں کے چکر لگاتے اور بستر پردم توڑجاتے ہیں۔ میرے بھائی کو رب نے زندانی موت( بدرجہ شہادت) سے سرفراز کیا۔ سوچنا یہ ہے کہ حسینہ واجد کو کیا ملا۔
یہی معاملہ میرے بھائی مطیع الرحمن نظامی کا ہے۔ 31مارچ 1943کو پیدا ہونے والے مطیع الرحمن 1971میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ تھے۔ (متحدہ پاکستان کے آخری ناظم اعلیٰ) کہا جاتا ہے کہ وہ البدر کے معاملات بھی دیکھتے تھے۔ تو کیا برا کرتے تھے۔ البدرتو پاکستان کی باقاعدہ فوج کا قائم کردہ رضا کار گروہ تھا۔ 28برس کے اس نوجوان کوبھی جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔ جب جماعت اسلامی بحال ہوئی تو اس نوجوان نے اپنی توانائیاں جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے صرف کردیں۔ دشمنوں کو دوست بنایا۔ تلخیوں کو شیرینی میں تبدیل کیا۔ گھروں کے دروازوں کے ساتھ دلوں کے دروازوں پر دستک دی۔ پھر زمانے نے دیکھا کہ نفرت کی علامت بنایا جانے والا مطیع الرحمن نظامی بنگلا دیش کی اسمبلی کے لیے منتخب ہوا۔ ایک بار نہیں دو بار۔ وزارت سنبھالی۔ اور بنگلا دیش کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پھر حسینہ واجد کی خواہش انتقام جاگی۔ مقدمہ چلا۔ سزا سنائی گئی۔ اور بالآخر 11مئی 2016کو انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ بوقت شہادت مطیع الرحمن نظامی کی عمر 71برس تھی ۔ انہوں نے اپنے اہل خانہ سے آخری ملاقات میں یہی تو کہا تھا کہ یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے توانائی کی عمر میں مجھ سے اپنے دین کا کام لیا اور جس عمر میں لوگوں کو بیماریاں گھیر لیتی ہیں مجھے ہسپتال کے بجائے براستہ تختہ دار اپنے گھر بلالیا۔
میر قاسم جن کی نظر ثانی کی اپیل گزشتہ دنوں مسترد کی گئی ہے۔ 31دسمبر 1952کو پیدا ہوئے یوں سمجھیے کہ وہ مجھ سے ایک سال چھوٹے اور برادر لیاقت بلوچ کے ہم عمرہیں۔ 1971میں چٹا گانک کے کالج میں فزکس کے طالب علم تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ کالج یونٹ کے ناظم، بنگلا دیش جماعت اسلامی میں فعال رکن تھے۔ فرد جرم میں تو وہی بکواس درج ہے جو تمام رہنماؤں کی فرد جرم میں ہے لیکن ان کا اصل جرم ان کا اسلامی بینک اور جماعت اسلامی کے مالیاتی نظام کو مضبوط کرنا ہے۔ایک بے بنیاد مقدمہ کی بنیاد پر سزائے موت کا مستحق قرار پانے والا یہ بھائی بھی اپنی توانائی کی عمر گزار چکا 64برس کی عمر میں تو رخصتوں اور رعایتوں کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ کتنا خوش نصیب ہے میرا یہ بھائی جو رخصت اوررعایت کے بجائے عزیمت کے لیے چنا گیا ۔ میر قاسم خوش نصیب ہو تم۔ واللہ خوش نصیب ہو تم۔ مجھے توتم پر رشک آرہا ہے۔ بے پناہ رشک۔
میر قاسم۔ ہم نے تم سے علیحدگی کے بعد تمہیں کبھی نہیں بھلایا۔ نہ تمہارے نام کو نہ تمہارے کام کو۔ بقیہ پاکستان میں پشاور سے کوئٹہ تک اور کشمور سے کراچی تک۔ ہم عصبیت کے خلاف کھڑے رہے۔ ہمارے ساتھیوں نے نہ توپختونستان کا نعرہ لگایا ۔ نہ گریٹر بلوچستان کا۔ نہ جیئے سندھ کانعرہ لگایا نہ جیئے مہاجرکا۔قاسم بھائی ہم بھی یہاں خون میں نہلائے گئے۔ خاک میں ملائے گئے۔ ہماری املاک جلائی گئیں۔ دوکانیں لوٹی گئیں۔ تعلیمی اداروں کے دروازے بند کردیے گئے۔ اللہ اکبر کا بیج لگائے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا پرچم اٹھائے عشاق کے قافلے چلتے رہے۔ قاسم بھائی اللہ گواہ ہے۔ ہم بنگلا دیش نا منظور تحریک چلا کر سو نہیں گئے۔ ہم نے محب وطن محصور پاکستانیوں کی واپسی کے لیے بھی کوششیں کیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے لوگ ہماری بات نہ سمجھ سکے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ دنوں ایک منحوس اور مردود شخص نے کراچی شہر کے پریس کلب کے سامنے جمع اپنے چاہنے والوں کے درمیان پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا دیا۔
میر قاسم ہم شرمندہ ہیں۔ تم پاکستان زندہ باد کہتے رہے۔ ہمارے پالیسی ساز پاکستان مردہ باد کہنے والے سانپوں کو پالتے رہے۔میر قاسم ہم شرمندہ ہیں۔ تم کسی کو یاد نہیں ہو ۔تمہاری بے گناہی پر کسی ٹی وی چینل پر بات نہیں ہورہی ۔تمہارے معاملے میں ہماری وزارت خارجہ خاموش ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہمارے آرمی چیف ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ کراچی میں پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے کے خلاف صف بندی کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن نہیں جانتے کہ ’’البدر‘‘ بنا کر اسے تنہا چھوڑ دینے اور پھر ’’رسوا‘‘ کرنے کی کوششیں کرنے والوں کے مقدر میں الطاف حسین ہی لکھے جاتے ہیں۔