تیل کا بھونچال، عوام کو بھی فائدہ ملے گا؟

308

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت اس قدر گر گئی ہے کہ اسے لوگ مفت سے بھی سستا قرار دے رہے ہیں۔ امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی مرتبہ 107 فیصد سے بھی نیچے گر کر منفی صفر اعشایہ صفر پانچ پر پہنچ گئی ہے۔ دُنیا بھر میں تیل کی قیمتیں پہلے بھی گر رہی تھیں لیکن ہمارے حکمران اس کا فائدہ اپنے عوام کو نہیں پہنچا رہے تھے تاہم اب عالمی مارکیٹ کریش ہونے کی خبر نے ساری دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ تیل کی قیمتیں صفر ڈالر سے بھی کم ہو گئی ہیں۔ آج کل دُنیا بھر میں لاک ڈائون کی وجہ سے ٹرانسپورٹ اور فیکٹریاں بند ہیں جس کے سبب پیٹرول کے خریدار نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ عالمی ماہرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اس زبردست کمی کا فائدہ وہ ممالک اٹھائیں گے جو لاک ڈائون جلد ختم کریں گے۔ اس وقت تو کسی ملک کے پاس تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی نہیں رہ گئی۔ ماہرین کی رائے اور پاکستان کی وفاقی حکومت کی رائے اس وقت یکساں ہے۔ وزیراعظم عمران خان لاک ڈائون جلد نرم اور رفتہ رفتہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان ان ممالک میں سے ہوگا جو پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اٹھائے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی سطح پر اس قدر کمی کا پاکستان کے عوام فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ہماری حکومتوں کا تو رویہ یہی رہا ہے کہ دُنیا میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ہونے کے باوجود یہاں قیمتیں کم نہیں کی جاتیں جس کے نتیجے میں حکومتی خزانے میں تو اربوں روپے آجاتے ہیں لیکن عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ جوں ہی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھنے کی خبر آتی ہے پاکستان میں فوری طور پر قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور قیمتیں گرنے پر یہ کہا جاتا ہے کہ ابھی تو سودے پرانے والے چل رہے ہیں، نئے سودوں کے وقت قیمتوں میں کمی کریں گے۔ کبھی کبھار کر بھی دی جاتی ہے لیکن وہ بھی اس شرح سے نہیں ہوتی جس سے عالمی منڈی میں کمی ہوتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جس وسیع پیمانے پر پیٹرولیم قیمتوںمیں کمی ہوئی ہے اس کی مناسبت سے ابھی سے ذخیرہ کرنے کا انتظام کیا جائے اور ملکی معیشت کو بھی فائدہ پہنچایا جائے اور عوام کو بھی۔ ذخیرہ اندوزی کے ماہر تو حکومت میں موجود ہیں ان کو پیٹرولیم قوم کے لیے ذخیرہ کرنے کا ذمے دار بنا دیا جائے۔ اپنی مہارت سے عوام کو بھی فائدہ پہنچائیں۔تیل کی قیمت کم ہونے سے ایک خطرہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں بے روزگاری بڑھے گی جس کا اثر سمندر پار پاکستانیوں اور ان کی طرف سے بھیجے جانے والے زرمبادلہ پر بھی پڑے گا۔ نفع ، نقصان کا حساب کر لیجیے۔