دوا ساز فیکٹریاں بند کرنے کا جواز؟

258

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے کراچی کے صنعتی علاقے کورنگی میں دو ادویہ ساز فیکٹریوں کو سر بہ مہر کرنے کے خلاف فوری طور پر پورے ملک میں دوا سازی کا عمل معطل کردیا ہے ۔ انتظامیہ کے مطابق ادویہ ساز فیکٹریوں کے عملے کو لانے والی گاڑی میں حکومت سندھ کے دیے گئے ایس او پی پر عمل نہیں کیا جارہا تھا ، اس لیے ان فیکٹریوں کو سر بہ مہر کردیا گیا ہے ۔ کراچی میں لاک ڈاؤن کے عمل کو ڈیڑھ ماہ کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے ، اس عرصہ میں کراچی اور اس کی وجہ سے پورے ملک کی تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوا ۔ پورے صوبے میں کورونا کے تشخیص شدہ مریضوں کی نوے فیصد تعداد کراچی میں ہی ڈیکلیئر کی گئی ، اس کے باوجود ابھی تک نہ تو صوبے میں اور نہ ہی کراچی میں کورونا کے مریضوں کی تعداد خطرے کے نشان تک پہنچی ہے البتہ کورونا کی روک تھام کے نام پر کیے جانے والے اقدامات نے ضرور اس شہر کو جس نے ہر برے وقت میں پورے ملک کے بوجھ کوپنے کاندھوں پر اٹھایا ہے ، غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیا ہے ۔ انتہائی مجبوری کی حالت میں چند صنعتوں کو کھولنے کی اجازت دی گئی تو ان پر بھی پولیس کو اس طرح چھوڑ دیا گیا کہ کہیں کام نہ چل پڑے ۔ مذکورہ فیکٹریوں کو سر بہ مہر کرنے کا جواز یہ بنایا گیا کہ ورکروں کو لانے والی گاڑیوں میںبیٹھنے والے افراد میںحکومت کی جانب سے بتایا گیا سماجی فاصلہ نہیں تھا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بتائیں کہ انہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ بند کی ہوئی ہے ، دفعہ 144 لگادی ہے جس کے تحت موٹر سائیکل پر کسی صورت میں ڈبل سواری کی اجازت نہیں ہے ۔ اب آخر کس طرح سے ورکر اپنی فیکٹری پہنچیں گے ۔ سوشل میڈیا پر کلپ وائرل ہیں کہ کار میں تین افراد کے سوار ہونے پر چالان کیے جارہے ہیں ۔یہ عجیب بات ہے کہ جہازوں میں لوگ لاکھوں روپے یکطرفہ کرایہ دے رہے ہیں مگر پھر بھی انہیں پندرہ گھنٹے کی پرواز میں برابر برابر بٹھا کر لایا جارہا ہے ، وہاں پر کوئی سماجی فاصلے کا ایس او پی نہیں ہے ۔ خود سندھ حکومت راشن کی طویل قطاریں لگوارہی ہے جہاں پر کھوے سے کھوا چھل رہا ہے ، وہاں پر سماجی فاصلے کا کوئی ایس او پی نافذ نہیں ہے ۔ سڑکوں پر پولیس نے اہم شاہراہیں بند کی ہوئی ہیں اور صرف ایک گاڑی کو گزرنے کی اجازت دی جارہی ہے ، جس سے ہر وقت سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں کا ہجوم رہتا ہے ، یہاں پر سماجی فاصلے کے ایس او پی کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے ۔ ساری فکر وزیر اعلیٰ سندھ کو مساجد کی ہے یا پھر فیکٹریوں کی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔ اب تو یہ حقیقت ہر ایک کی زبان پر ہے کہ کورونا کی شدت کو زیادہ ظاہر کرنے اور اس کو مزید خوفناک ثابت کرنے کے لیے دیگر امراض سے جاں بحق ہوجانے والوں کو بھی کورونا کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے ۔ معاملات صرف اس حد تک نہیں ہیں بلکہ طبعی موت مرنے والے افراد کے اہل خانہ کو بھاری رقم کی پیشکش بھی کی جارہی ہے کہ ان کے مرحوم کی وجہ انتقال کو کورونا ظاہر کردیا جائے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر امراض سے جاں بحق افراد وکو کورونا کا مریض ظاہر کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ ملک میں کورونا سے جاں بحق 83 فیصد افراد مختلف بیماریوں کا شکار تھے ۔ کورونا کی صورتحال کو شدید بنانے اور اس کی آڑ میں اربوں روپے کے فنڈز ادھر سے اُدھر ہونے پر تو عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے بھی یہ سوال پوچھ لیا ہے کہ ملک میں کورونا کے مریض صرف پانچ ہزار ہیں تو کھربوں روپے کہاں پر خرچ ہوگئے ہیں ۔ سندھ کے بارے میں عدالت عظمیٰ نے خاص طور سے کہا کہ سندھ سے متعلق باتیں بلاوجہ تو نہیں بنتیں ۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی راج ہٹ اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہی کہا ہے کہ کراچی میں وائرس کی مقامی منتقلی نے تباہی مچانا شروع کردی ہے ۔ حالات کی سنگینی اتنی ہے کہ سرکار خود بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت طویل لاک ڈاؤن برداشت نہیں کرسکتی ، اس سے غربت میں اضافہ ہوگا ۔ لاک ڈاؤن سے کاروباری طبقہ شدید متاثر ہے اور بچوں کی تعلیم کا نقصان ہورہا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ جمع تفریق میں حساب کتاب کرلیا جائے کہ کورونا سے نقصان ہوا ہے یا کورونا کے نام پر ملک کو نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ جس ملک میں مختلف حادثات اور طبعی طور پر مرنے والوں کی تعداد یومیہ کئی ہزار ہو ، اس ملک میں دو ماہ میں دو سو افراد کے مرنے سے ایسی کیا قیامت آگئی کہ پورے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ ڈینگی ، ہیپاٹائٹس اور اس جیسی دیگر بیماریوں سے روز مرنے والوں کی تعداد ہی اب تک کورونا سے مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے ۔ کیا یہ بات سرکار بتائے گی کہ اس کے نزدیک افراد اہم ہیں یا فنڈز کی خورد برد ۔ کورونا کے نام پر صرف اس لیے لاک ڈاؤن کیا گیا ہے کہ لوگ ا س سے نہ مرجائیں مگراب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کورونا کو خطرناک ثابت کرنے کے لیے جعلی اعداد و شمار سرکاری سطح پر پیش کیے جارہے ہیں ۔ کورونا کے نام پر ملک میں جو معاشی تباہی پھیلائی گئی ہے اس کے مقابلے میں اب تک ملک کو لوٹنے والے سارے افراد کی مجموعی تباہی بھی کچھ نہیں ہے ۔