جاوید اکبر انصاری
شیعہ سنی اتحاد: طالبان نے کبھی شیعوں کو عسکری ہدف نہیں بنایا اس کے باوجود یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ پہلی مارچ کو ایران کی اسلامی حکومت نے اس معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے پٹھو سامراجی حکومت میں اس کی شرکت کا مطالبہ کیا ہے۔ شیعہ سنی اتحاد مشرق وسطیٰ میں اسلامی غلبے کی کلیدی شرط ہے۔ افغانستان میں شیعہ گروہوں نے بھی سامراج سے مزاحمت کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں شیعہ سنی اتحاد مستحکم ہوا اور افغان شیعہ حلقہ ایران کی اسلامی حکومت کو باور کرائیں کہ افغانستان میں امریکا کی سرپرستی میں قائم شدہ حکومت لازماً اسلامی ایران میں تخریب کاری اور دہشت گردی کا ذریعہ بنے گی۔
امارت اسلامیہ کا احیا: طالبان کے زیر اثر علاقوں میں امارت اسلامیہ قائم ہے اس کا مکمل سقوط کبھی بھی نہ ہوا۔ سامراجی جمہوری عمل کے ذریعہ اس امارتی نظام کی تسخیر کے خواہاں ہیں۔ اس کے لیے وہ جمہوری نظام کی اسلام کاری کا حربہ استعمال کریں گے جیسا کہ 2019 کے انتخابات سے ثابت ہے جمہوری نظام افغانستان میں بالکل ناکام ثابت ہوا ہے اور اس کی توضیح کا کوئی وعدہ حالیہ معاہدہ میں نہیں کیا گیا ہے اب اس جمہوری نظام کو قبر میں گاڑدینے کا وقت آگیا ہے۔
امارت اسلامیہ کی تحکیمی صلاحیت کی توسیع: اماراتی نظاماتی توجیح کی ضرورت طالبان کے زیر اثر علاقوں میں بھی ہے اور سامراجی تسلط کے علاقوں میں بھی طالبان کے زیر اثر علاقوں میں یہ تحکیمی نظام نامکمل ہے ان علاقوں میں ریاستی اور نیم ریاستی ادارہ اقتصادی سماجی اور خارجہ امور پر پورا کنٹرول نہیں رکھتے غیر سرمایہ دارانہ زر کا اجرا اور اسلامی تمویلی نظام کا قیام ابتدائی منازل میں ہے۔ قبائل کی معاشرتی زندگی میں دخول بھی واضح نہیں۔ غیر ممالک (بالخصوص ایران اور روس) سے مستقل بنیادوں پر تعلقات برقرار رکھنے کا انتظام نہیں کیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نامکمل ریاستی انتظامی نظام کو اسلامی غیر سرمایہ دارانہ خطوط پر توسیع دی جائے اور اس کے لیے طالبان کی صفوں سے باہر مخلصین دین سامراج مخالف گروہوں سے شرکت کار لازمی ہے۔
Peace Process سامراج تسلط کے علاقوں میں بھی اسلامی دخول کے وافر مواقع فراہم کرتا ہے۔ امریکی افواج کا 14مہینوں میں مکمل انخلا جس peace process کے اختتام سے مشروط ہے اس میں یہ واضح نہیں کیاگیا کہ طالبان اور امریکی پٹھوں کے مصالحت کے ذریعہ ایک مخلوط نظام قائم کیا جائے گا معاہدے کے اس ابہام سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکی پٹھو حکومت کو اپنے زیر اثر علاقہ میں معاشرتی اور سیاسی طور پر تنہا کیا جائے افغانستان میں جمہوری عمل کوئی معنی نہیں رکھتا اور بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے رائے دہندگی نہ ہونے کے برابر ہے اشرف غنی کی صدارت کو عبداللہ عبداللہ تسلیم نہیں کرتا کرپشن اس قدر عام ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات کے نتائج کئی ماہ کے تعطل کے بعد مرتب ہوئے۔ حقیقت میں یہ ایک نہایت کمزور حکومت ہے جو سامراج کے سہارے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔
افغانستان میں جمہوری عمل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیے بغیر اسلامی امارت کا قیام اور استحکام ناممکن ہے۔ سامراجی جمہوری عمل کے ذریعے بڑے پیمانے پر تخریب کاری کی اہلیت حاصل کرلیں گے۔ ان کے پٹھو امریکی فوجی تنصیبات کے فروغ اور سی آئی اے اور Special Operation Forces کے اطلاعاتی network کو پھیلانے کی وکالت کریں گے اور امریکی سامراجی امداد کے سہارے اسلامی معاشرت کو مجروح کریں گے سامراجی پٹھو حکومت کو تنہا کرنے کے لیے سامراجی مقبوضہ علاقہ میں اسلامی انقلابی صف بندی ناگزیر ہے۔
افغان سامراجی مقبوضہ علاقوں میں انقلابی عوامی تنظیم سازی مسجد کی سطح پر کی جاسکتی ہے اور اس تنظیم سازی کا مقصد مقامی سطح پر قبائل اور جرگوں سے اشتراک عمل کی بنیاد پر سامراجی انتظامیہ کو بے دخل کردینا ہو۔ چودہ مہینہ کے عرصہ میں پٹھو حکومت کا شیرازہ اتنا بکھر جائے کہ سامراجی اس کی پشت پناہی کو ایک لاحاصل عمل سمجھنے لگیں۔
امارت اسلامیہ کے خدوخال طے کرنے کے لیے یہ مشاورت تمام اسلامی گروہوں سے افغانستان میں کی جائے ناروے یا کسی اور ملک میں نہیں۔ یہ مشاورت فی الفور شروع کی جائے اور چودہ ماہ کے بعد سامراجی فوج کے مکمل اخراج کا مطالبہ کرے۔