مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آئوٹ اور کورونا

428

عالمی سطح پر کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں 9 ماہ سے جاری لاک ڈائون اور مواصلاتی بلیک آئوٹ نے صورت حال کو کہیں زیادہ سنگین بنادیا ہے۔ ہر ملک اپنے طور پر اس وبا سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار کررہا ہے۔ اپنے باشندوں کو خوراک، ادویات اور حفاظتی سامان کی فراہمی یقینی بنارہا ہے۔ حکومتیں اپنے طور پر اور این جی اوز اپنے وسائل کے مطابق اپنے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر وہ بدقسمت علاقہ ہے جس کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ بھارت نے گزشتہ سال 5 اگست کو یہ علاقہ اپنے اندر ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اُس وقت سے تادم تحریر اس علاقے کے مکین لاک ڈائون کا شکار ہیں اور پورے علاقے میں مواصلاتی بلیک آئوٹ کرکے اس کا رابطہ دنیا سے منقطع کردیا گیا ہے۔ کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد اگرچہ متاثرہ ملکوں میں رضا کارانہ لاک ڈائون کو رواج دیا گیا ہے لیکن متاثرین جانتے ہیں کہ یہ رضا کارانہ پابندیاں کتنی تکلیف دہ ہیں اور ان سے ان کے معمولات زندگی کس بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ البتہ انہیں مواصلاتی رابطوں کی سہولت حاصل ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کررہے ہیں اور ایک دوسرے سے رہنمائی حاصل کررہے ہیں۔ اس کے برعکس کشمیری وہ بدقسمت لوگ ہیں جنہیں پوری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ مواصلاتی رابطہ منقطع ہونے سے وہ اس گلوبل ویلج کا حصہ نہیں رہے۔ دنیا ان کے متعلق کچھ نہیں جانتی کہ وہ کس حال میں ہیں اور نہ ہی وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ دنیا کورونا سے کس انداز سے نمٹ رہی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو بالجبر اپنے اندر ضم تو کرلیا ہے لیکن وہ کشمیری عوام کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، وہ انہیں اپنا دشمن سمجھتا ہے اور دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹانا اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں شدید ترین لاک ڈائون کے باوجود فوجی آپریشن میں مصروف ہے اور نوجوان کشمیریوں کو چن چن کر مار رہا ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پاکستان نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی سے مواصلاتی بندش فوری ختم کرے اور کورونا وائرس کے پھیلائو کے پیش نظر وہاں میڈیکل ٹیموں کو جانے اور کشمیریوں کو ضروری ادویات اور حفاظتی سامان فراہم کرنے کی اجازت دے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ڈاکٹر عائشہ فاروقی نے ایک پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ علاقے کے شہریوں کو ہر قسم کی طبی سہولتوں سے محروم رکھ کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کررہا ہے جس پر عالمی اداروں کو توجہ دینا چاہیے۔ پریس بریفنگ میں بھارت سے مطالبہ عمومی نوعیت کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت سے یہ مطالبہ سفارتی سطح پر کیا جائے اور عالمی ادارہ صحت کو اس مطالبے میں فریق بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مواصلاتی بندش کے سبب مقبوضہ علاقے میں کورونا کے متاثرین کی تعداد کا اندازہ نہیں ہے، البتہ جستہ جستہ خبروں سے پتا چلتا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں کورونا سے ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور کورونا متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے، جب کہ بھارتی حکومت نے اس علاقے کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے۔ مسلسل لاک ڈائون کے سبب مقبوضہ علاقے کی معیشت تباہ ہوگئی ہے۔ کاروبار بند ہے، اشیائے خوراک کی نقل و حمل کا کوئی بندوبست نہیں ہے اور لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کو حرکت میں لائے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کو کسی صورت بھی نظر انداز نہ کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ کشمیری عوام یہ سارا ظلم پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے برداشت کررہے ہیں۔ سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ کشمیری عوام نے پاکستان کے لیے جتنی قربانیاں دی ہیں اس کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کسی صورت بھی انہیں بے یارومددگار نہ چھوڑے۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام جن گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں ان میں سے ایک نہایت سنگین مسئلہ یہ ہے کہ گھروں سے نوجوان لڑکوں اور بارہ چودہ سال کے بچوں کو اُٹھایا جارہا ہے۔ بھارتی فوجی آتے ہیں گھروں کا محاصرہ کرتے ہیں اور جونہی انہیں سن گن لگتی ہے کہ گھر میں نوجوان یا کم عمر لڑکا موجود ہے وہ چھاپا مار کر اسے پکڑ لیتے ہیں پھر اس کا سراغ نہیں ملتا۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے ان کی نوجوان نسل کا صفایا کردیا جائے۔ بہت سے نوجوان پکڑے جانے کے خوف سے ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیں اور گھروں کے اندر کوٹھڑیوں میں خود کو بند رکھنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے کچھ نوجوان اس مجبوری کی زندگی کے بجائے عسکریت اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جنگلوں کی راہ لیتے ہیں۔ اس وقت سرینگر اور جموں جیل کشمیریوں سے بھری ہوئی ہیں، ان میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی رکھے گئے ہیں اور ان میں صفائی ستھرائی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے ان قیدیوں کے لیے شدید خطرات پیدا کردیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مفتی اعظم علامہ ناصر الاسلام نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جیلوں کے علاوہ بھارت کی جیلوں میں قید کشمیری سیاسی قیدیوں کو بلاتاخیر رہا کیا جائے کیوں کہ ان میں کورونا وائرس پھیلنے کا شدید خطرہ ہے اور اس کے نتیجے میں ایک بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔ انہوں نے مودی سرکار سے کہا ہے کہ وہ صورت حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے کشمیری قیدیوں کو ان کے گھر منتقل کرنے کا اہتمام کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آئوٹ نے پورے علاقے پر ایک آہنی پردہ ڈال دیا ہے اور پوری دنیا کشمیری عوام کی حالت زار سے بالکل بے خبر ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ، دیگر عالمی اداروں، امریکا اور دیگر ملکوں کے تعاون سے مقبوضہ کشمیر کا مواصلاتی بلیک آئوٹ ختم کرایا جائے۔ اس کے لیے جارحانہ سفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت پاکستان کورونا وائرس کے سبب شدید داخلی دبائو میں ہے، اس کی تمام تر توجہ وائرس کے پھیلائو کو روکنا اور کمزور طبقات کو قوت لایموت فراہم کرنا ہے لیکن پاکستانی قیادت کو احساس کرنا چاہیے کہ کشمیر بھی پاکستان کے جسم کا حصہ ہے جسے اس سے جبراً الگ کردیا گیا ہے بلکہ بانی پاکستان کے بقول کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ہم اسے کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں۔ موجودہ مشکل حالات میں بھی ہماری ذمے داری ہے کہ پوری دنیا میں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کریں، عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیں۔ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کو حرکت میں لائیں اور مقبوضہ علاقے سے مواصلاتی بلیک آئوٹ ختم کرانے کے ساتھ ساتھ عالمی امدادی ایجنسیوں اور این جی اوز کی رسائی کشمیری عوام تک ممکن بنائیں تا کہ انہیں خوراک، ادویات، وائرس کے خلاف حفاظتی سامان اور دیگر ضروریات زندگی فراہم ہوسکیں۔ یہ کام عالمی تعاون سے صرف پاکستان کرسکتا ہے اور اسے اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔