ایک طویل اور صبر آزما اعصابی جنگ

402

عطا محمد تبسم
نرمی اور فریب ایک ساتھ ہوں تو تاریخ بہت سے نئے قصے سناتی ہے۔ انسانی جانوں کا نقصان ہمیشہ نئی تاریخ مرتب کرتا ہے اور کہیں کہیں جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے۔ سب سے زیادہ انسانی جانیں جنگوں کی نظر ہوئیں اور ان جنگوں نے جغرافیہ بھی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ بہت سے ملک صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور بہت سی قومیں اپنا وجود کھو بیٹھیں۔ لیکن اب جو ذہن و دل کی جنگ ہے۔ اس میں خوف زیادہ ہے۔ موت کا خوف، جنگ میں انسانوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شجاعت اور بہادری کی انگنت داستانیں رقم کی ہیں۔ شجاعت کے یہ کارنامے انسان کی اپنی قوم ملک اور خاندان سے محبت کا اظہار ہیں۔ لیکن موجودہ حالات نے انسان کو اس محبت کی ایک ایسی سزا دی ہے۔ جس نے اسے بزدل بنادیا۔ وہ اپنے نظریات اور اعتقاد پر مصلحت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسے اپنی جان سے زیادہ اس کے آس پاس اور اس کے پیاروں کی زندگی کا خوف دلایا گیا ہے۔ اس خوف نے بہت سے مرتے ہوئے لوگوں کو اپنے پیاروں سے اس وقت جدا اور تنہا کردیا جب انہیں اس کی زیادہ ضرورت تھی۔
ابھی تک نہ حکومت ایک پیج پر ہے، اور نہ ہی کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب ہوا ہے، جس سے پوری قوم یک جا ہو کر ایک سمت ہوکر اس وبا کا مقابلہ کرے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ کورونا کی ویکسین بننے میں ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے۔ عالمی ادارے بھی ابھی اس بارے میں کوئی حتمی رائے کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’لوگوں سے زبردستی لاک ڈاؤن نہیں کرا سکتے‘‘۔ تقریباً ایک ماہ پہلے جب سندھ نے اس بارے میں پہل کی تھی تو اندازہ تھا کہ دو تین ہفتے بعد صورت حال معمول پر آجائے گی۔ لیکن نہ تو پہلے سے اس بارے میں کوئی تیاری تھی اور نہ ہی لوگوں کو اس کی شدت کا اندازہ تھا۔ ہمارے لوگ یوں بھی سمندری طوفان کی آمد کا سن کر بچاؤ کرنے کے بجائے، سمندر کا رخ کرتے ہیں کہ طوفان کیسے آتا ہے، یہی حال کورونا کے بارے میں ہے، لوگ کورونا کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اسے ہر جگہ گلے لگانے کو بے تاب ہیں۔ ایسے میں ہر طرح کے حفاظتی اقدامات لاک ڈاؤن کے نام پر مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ عوام اور انتظامیہ دونوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اب اصولی طور پر
عوام گھروں سے اس وقت باہر نکل سکتے ہیں جب باہر کورونا کا ایک مریض بھی نہ ہو یا اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہو جاتی۔ کیوں کہ اس وبا پھیلانے کے لیے ایک مریض بھی کافی ہوتا ہے۔ دوسری طرف سندھ گورنمنٹ نے جو بھی سخت لاک ڈاؤن کیا وہ صرف سندھ کے شہری علاقوں، کے تاجروں اور فیکٹریوں تک محدود رہا۔ بازاروں، بڑے بڑے اسٹورز اور امدادی رقوم کی وصولی کے لیے وہی ہجوم باقی رہا۔ پولیس نے اس صورت حال کو بھی اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا۔ بہت سے تاجروں اور کارخانہ داروں نے ملازمین کو ملازمت سے فارغ بھی کر دیا ہے۔ سندھ حکومت طبی سہولتوں کی فراہمی، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کو حفاظتی سامان کی فراہمی میں بھی ناکام رہی یا سرے سے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔ ٹیسٹوں کی رفتار سست اور ناکافی ہے۔ سندھ حکومت اس بار بھی شفافیت دکھانے میں ناکام رہی، لٹیروں نے اس وبا کو دھندہ بنا لیا ہے۔ اجناس، آٹا، چینی، ماسک گلوز، سینی ٹائزر، اینٹی سیپٹک، فروٹ، سبزی، دودھ اسی طرح مہنگی فروخت کی جارہی ہیں۔ تین دن بعد رمضان بھی شروع ہونے والے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی معیشت شدید خطرے میں ہے، اس لیے لوگوں نے جزوی طور پر دکانیں کھولنے اور کام پر واپس جانا بھی شروع کردیا ہے۔
معاشرے میں نفساتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ کورونا نے انسانوں کو اندر سے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ لوگ اس خوف میں صبح کا آغاز کرتے ہیں کہ جانے آج کا دن کیسے گزرے گا۔ وبائی بیماری کیا گل کھلائے گی۔ اور رات کو اس امید کے ساتھ سوتے ہیں کہ صبح اٹھیں گے تو دنیا سے اس وبا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ دنیا کے حقائق اور زندگی کے حوصلہ بخش معمولات سے ہم دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس صورت حال پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ حالات چند ہفتوں اور مہینوں میں نہیں تبدیل ہوں گے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما اعصابی جنگ ہے۔ جسے ہر فرد کو اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے حالات میں لڑنی ہے۔ اسے ختم ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں اور چند ماہ بھی۔ اس کے حساب کتاب میں روز وشب نہیں گھلانے ہیں۔ جینے والوں کو حوصلہ درکار ہے۔ وقت کو گزارنے کا بیتانے کا حوصلہ۔ اس وقت کا کوئی مثبت استعمال کریں۔ سب سے زیادہ حوصلہ تو اپنے ربّ کی حمد وثنا اور استغفار میں ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ذکر کریں۔ شکر کریں ان نعمتوں کا جو آپ کے آس پاس ہیں۔ یہی آپ کو جینے اور اس مشکل وقت کو گزارنے کا عزم وحوصلہ دیں گے۔