مساجد بند کرنے کی دھمکی

380

دین اور مذہبی شعائر سے بیزاری کا حال یہ ہوگیا ہے کہ بے دھڑک دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جو لاک ڈائون سخت کرنے کے بھی مخالف ہیں تعمیراتی صنعت کو کھولنے اور اس کے لیے خصوصی پیکیج دے کر اس پر مہربان ہیں۔ دیگر صنعتیں کھولنے کے لیے ایس او پی بنا رہے ہیں لیکن دھمکی دے رہے ہیں کہ مساجد سے کورونا وائرس پھیلا تو بند کر دیں گے۔ لوگ رمضان میں گھروں پر عبادت کو ترجیح دیں، مساجد جانا ہے تو حکومتی شرائط پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی کو اندازہ نہیں کہ صورتحال کب بہتر ہوگی، لاک ڈائون غیر معینہ مدت تک نہیں چل سکتا۔ جناب وزیراعظم کے علم میں یہ بات یقیناً ہوگی کہ ملک بھر کی مساجد میں علما کی جانب سے تجاویز پیش کرتے ہی تمام احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد شروع ہو گیا تھا۔ اجلاسوں اور منظوری کی نوبت تو بہت بعد میں آئی۔ دُنیا بھر کی حکومتوں کی طرح پاکستانی حکمران بھی ڈرانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور حفاظت پر کم… بات صرف وزیراعظم کی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ بھی بڑھ چڑھ کر مذہب کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہائوس سے منگل کو جاری ہونے والی خبر میں نیشنل ڈیٹا بیس قائم کرنے کا ذکر تھا اور لاڑکانہ کے دورے کی بات کی گئی تھی۔ لیکن خبر کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ تبلیغی جماعت کے تین ارکان کے پی کے سے اپنے آبائی ضلع ٹنڈو محمد خان واپس آئے ان کے پاس صحتیابی کا سرٹیفکیٹ تھا لیکن جب ان کا دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا تو یہ مثبت نکلا۔ خبر بنانے کا انداز ایسا تھا گویا سندھ میں کورونا ان تین تبلیغیوں سے پھیلا ہے ورنہ لاک ڈائون موثر تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر صرف اخبارات کی تصاویر دیکھ لی جائیں جو پورے ملک میں جگہ جگہ احتیاطی اقدامات کی دھجیاں بکھیرنے سے متعلق ہوتی ہیں تو ان میں مساجد نہیں ہوتیں۔ سرکاری طور پر راشن کی تقسیم ہوتی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کی لائن ہوتی ہے یا پھر صنعتوں میں کام ہے۔ اسی طرح سبزی منڈی اور بندرگاہ یہاں ایک دن بھی کام بند نہیں ہوا اور یہاں مزدور ایک دوسرے کے قریب قریب آٹھ دس گھنٹے مصروف کار رہتے ہیں۔ لیکن اب تک سبزی منڈی اور بندرگاہ کے کارکن محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ جو صنعتیں کھل گئی ہیں ان میں بھی ایس او پیز پر عمل کیا جا رہا ہے اور مساجد میں بھی لیکن سب کی نظریں مساجد کی طرف ہیں۔ اہم طبقات کو مساجد اور نماز تراویح سے روکنے کے لیے سرگرم کر دیا گیا ہے۔ یہ بات جانے بغیر کہ حرمین میں کیا صورتحال ہے، یہ کہا جا رہا ہے کہ حرمین میں تراویح پر پابندی ہے۔ حالانکہ بدھ کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہو چکی ہے کہ حرمین میں بھی تراویح ہو گی البتہ اعتکاف پر پابندی ہو گی۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ امریکی شہرمیناپولس میں لائوڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت بھی دے دی گئی ہے لیکن پاکستان میں سب کا نشانہ مساجد اور تبلیغی جماعت ہیں۔ اگر محض دعوئوں اور الزامات پر فیصلے ہونے لگے تو پاکستان میں انارکی پھیل جائے گی۔ کسی پر بھی الزام لگایا جائے گا اور سب اس کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ میڈیا کے ذریعے پہلے ایران سے آنے والے زائرین میں کورونا کی تشخیص کی اطلاع ملی تھی اس کے بعد اچانک کورونا سے متعلق تمام الزامات کا رخ تبلیغی جماعت اور مساجد کی جانب ہو گیا لیکن تبلیغی جماعت کے جتنے لوگوں کے ٹیسٹ ہوئے ہیں ان میں بہت کم مثبت آئے ہیں اور کسی مسجد میں تو لوگ نہا کر وضو کر کے صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ کوئی بات کہنے سے قبل حقائق کا جائزہ لے لیا کریں۔ خوامخواہ مساجد اور تبلیغ کو نشانہ نہیں بنایا جائے۔