کورونا، ایک نئی سرد جنگ کی بنیاد؟

301

امریکا کے بعد اب برطانیہ نے بھی کورونا کے حوالے سے چین کی جانب روئے سخن کیا ہے۔ گو کہ برطانیہ نے ابھی تک امریکا کی طرح کورونا وائرس کی تیاری کا الزام براہ راست چین پر عائد نہیں کیا مگر امریکا اور برطانیہ کے طرز ِ تخاطب میں معنی خیز مطابقت پائی جاتی ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا کہ چین سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا اور چین کو اس حوالے سے سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ دنیا جاننا چاہتی ہے کہ چین میں ابتدائی دنوں میں کیا ہوا؟۔ برطانیہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد لاکھوں میں اور مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ برطانیہ میں اس وقت بھی کاروبار حیات معطل ہے اور شہر ودیہات مکمل لاک ڈائون کا شکار ہیں۔ برطانیہ کا شہزادہ چارلس اور وزیر اعظم بورس جانسن کورونا کا شکار ہونے کے بعد دوبار زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ امریکا کا حال بھی اس چنداں مختلف نہیں۔ اس وقت امریکا بھی کورونا کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ بھی اپنا کورونا ٹیسٹ کرانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ امریکا کی کئی ریاستوں کے کاروباری، ثقافتی، سیاحتی، مذہبی مراکز ویران ہو چکے ہیں۔
امریکا نے بہت پہلے ہی کھل کر چین پر وائرس کی تیاری کا الزام عائد کیا تھا اور اب بھی امریکا ایک تواتر کے ساتھ یہ الزام دہراتا چلا آرہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دھمکی آمیز انداز میں خبردار کیا ہے کہ اگر وائرس کے پھیلائو میں چین کے ملوث ہونے کا ثبوت ملا تو چین کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ چین نے روز اول کی طرح ایک بار پھر امریکی الزام کو مسترد کیا ہے۔ اس سے پہلے چین کی طرف امریکا پر ووہان میں کورونا بھیجنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ چینی حلقوں نے اسے برطانوی لیبارٹریز میں تیار کرنے کی بات بھی کی تھی۔ اب امریکا اور برطانیہ اس معاملے میں یک زبان ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ابھی الزام در الزام کا یہ سلسلہ طول پکڑے گا اور کورونا وبا پر قابو پالیا گیا تو اس کے بعد بھی الزامات کا یہ سلسلہ نہ صرف زبانی طور پر جاری رہے گا بلکہ یہ نئی عالمی سیاست کے خدوخال اُبھارنے کا باعث بنے گا۔ کورونا ایک نئی سرد جنگ کی بنیاد بنتا جا رہا ہے۔ یہ دنیا کے برتائو اور تعلقات کے انداز کو تو تبدیل کررہا ہے مگر یہ سوال بھی اب اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کہیں یہ وائرس دنیا کے نقشے پر بھی اپنے اثرات مرتب کرنے کا باعث نہیں بنے گا؟۔ یونی پولر دنیا میں دہشت گردی کے نام پر انسانوں اور انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کے لیے کبھی القاعدہ تو کبھی داعش کے ’’سینڈ بیگ‘‘ کھڑے کیے گئے۔ نائن الیون نے اس خطرے کی بنیاد پر دنیا کا نظام اور برتائو کے انداز کی تشکیل نو کی۔ نائن الیون سے پہلے دنیا ایک کھلی فضا کی مانند تھی اس کے بعد حفاظتی اقدامات، پابندیوں کے نام پر اسے باڑھ بندی اور حصاروں سے بھر دیا گیا۔ امیگریشن کے قوانین بدل دیے گئے۔ لوگوں کے حق سفر پر پابندیاں لگیں۔ شہریت کے اصول اور ضوابط تبدیل کر دیے گئے۔ اس ساری صورت حال پر یہ شعر صادق آتا تھا۔
مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
کورونا کے اُبھرتے ہوئے نئے چیلنج نے انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کے اس دور کو اختتام کی حد تک پہنچادیا ہے۔ اب یہ ثابت ہورہا ہے کہ انسانیت کو اصل خطرہ انسانوں سے نہیں ایک چھوٹے سے وائرس سے ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ایک نئی حقیقت کے اُبھرنے کے بعد اس سائے کا تعاقب کرنا اب دنیا کی مجبوری ہو کر رہ جائے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادی کورونا بحران کو چین کی کلائی مروڑنے کے لیے پوری طرح استعمال کررہے ہیں۔ چین کا اقتصادی محاصرہ اور مقاطع کرکے اس کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چین سے اپنا کاروبار سمیٹنے کے لیے بھی مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اگر امریکا اور برطانیہ سمیت مغربی بلاک نے کورونا بحران کو عالمی سیاست کے لیے استعمال کرنے کا راستہ اختیار کیا تو یہ ایک نئے بحران کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکا اور برطانیہ اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ چین نے اس بحران پر کس طرح اتنا جلدی قابو پایا اور اموات کا گراف بھی نچلی سطح پر رکھا۔ اس کا جواب انہیں چین اور اپنے نظام ہائے حکومت میں تلاش کرنا چاہیے۔ چین ایک سخت گیر نظام کا حامل ہے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ لاک ڈائون کے سوا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تو انہوں نے ووہان میں گھروں کو باہر سے تالے لگا کر لاک ڈائون کو کامیاب بنایا۔ انہوں نے اپنا فیصلہ منوانے میں کسی تذبذب اور تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس امریکا اور برطانیہ جمہوری طرز حکومت کے حامل ملک ہیں اور جمہوریت میں نہ تو فوری فیصلہ سازی ہوتی اور نہ فیصلوں کو آمرانہ طور طریقوں سے منوایاجاتا ہے۔ بورس جانسن پر برطانیہ میں لاک ڈائون کرنے میں تاخیر کا الزام میڈیا اور عوام کی طرف سے لگایا جاتا رہا۔ برطانوی حکومت اپنی ہی طرز کا ایک فارمولہ ذہن میں سجائے ہوئے رہی اس دوران وائرس تیزی سے پھیلتا رہا۔ امریکا میں بھی ٹرمپ پر کورونا بحران سے نمٹنے میں تساہل کا الزام ہے۔ جس بھی ملک نے اس خطرے کو مذاق سمجھ کر فیصلوں میں تاخیر کی اس نے خمیازہ بھگت لیا۔ جن ملکوں نے اگر مگر کے چکروں میں پڑے بغیر سرعت کے ساتھ فیصلے کیے وہ اپنے نقصان کو کم از کم سطح پر رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس سیدھے اور آسان فارمولے کو پاکستان کو بھی ہر لمحہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ لاک ڈائون کو اس انداز سے نرم کرنا چاہیے کہ عوام احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں۔ اس لیے رمضان المبارک میں حکومت کو لاک ڈائون کے حوالے سے اس اصول پر سختی سے کاربند رہنا چاہیے۔