وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی!! ایک چودھری صاحب یاد آجاتے ہیں جو ریس کلب میں سگریٹ پر سگریٹ پیتے ہوئے بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ ایک دوست نے چودھری صاحب کو یوں بے چین دیکھا تو خیریت دریافت کرتے ہوئے کہا ’’چودھری صاحب خیر تو ہے بہت پریشان دکھائی دے رہے ہیں، بے چینی سے ٹہل رہے ہیں، سگریٹ پر سگریٹ بھی سلگا رہے ہیں‘‘۔ چودھری صاحب نے نفی میں جواب دیا۔ اِس پر دوست نے پوچھا ’’کیا یہاں آپ کا کوئی گھوڑا دوڑ رہا ہے‘‘۔ چودھری صاحب نے جواب دیا ’’اوئے یہ میرا گھوڑا ہی تو ہے جس نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے‘‘۔ ملک کے سب سے بڑے اور اہم صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب کی کارکردگی نے بھی عمران خان کی حکومت کو آگے لگایا ہوا ہے۔ عجب دبڑ گھونس مچائی ہوئی ہے۔ (دبڑ گھونس کا لفظ آپ کو کسی لغت میں نہیں ملے گا۔ یہ لفظ نواب اکبر بگٹی نے ایک موقع پر حالات حاضرہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا تھا)۔ حکمرانی کے جتنے بھی مزے ہیں آدھے اپوزیشن نے حرام کررکھے ہیں اور آھے میڈیا نے۔ اپوزیشن کا علاج تو نیب بخوبی کررہی ہے لیکن میڈیا کا کیا کریں۔ اس کا علاج بزدار صاحب نے تصاویر کھنچوانے میں ڈھونڈ لیا ہے۔ ان کی کارکردگی کی تلاش تو بھوسے کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے لیکن تصاویر کا وہ رش ہے کہ اس میدان میں ان سے بازی لے جانا ممکن نہیں۔ بقیہ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تشہیری مہم میں ان کے پاسنگ بھی نہیں، کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ کسی تصویر میں وہ میٹنگ کی سربراہی کررہے ہیں، کسی میں درباریوں کے آگے آگے چلتے ہوئے نظر آرہے ہیں، کہیں بریفنگ لے رہے ہیں، کہیں چیک تقسیم کررہے ہیں، کہیں وزیراعظم کے ساتھ کھڑے وزیراعظم کو آٹے کا تھیلا دیتے ہوئے دیکھ کر زیر لب مسکرا رہے ہیں۔ کہیں خود آٹے کا تھیلا دے رہے ہیں۔ کسی تصویر میں اپنے آفس میں تشریف فرما ہیں، کسی میں اسپتال کا دورہ کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں کسی غریب سے باتیں کررہے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں وہ غریبوں سے کیا باتیں کرتے ہوں گے۔ ایک تصویر میں وزیراعظم عمران خان اور خاور مانیکا کو باتیں کرتے دیکھا تھا تب بھی ہمیں یہی خیال آیا تھا کہ وہ باہمی دلچسپی کے کن امور پر باتیں کررہے ہوں گے۔ تاہم ایک بات کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ ہر موقع پر بزدار خالص پا کستانی نظر آتے ہیں۔ جی دار پا کستانی۔ کسی تصویر میں بھی وہ ماسک لگائے نظر نہیں آتے۔
پچھلے ہفتے بارہ ہزار روپے کے حصول کے لیے لوگوں کو قطاروں میں لگے، دھکے کھاتے، خواتین کو گرتے پڑتے، بیہوش ہوتے دیکھا تو امرتا پریتم یاد آئی جنہوں نے کہا تھا ’’کاش انسان کو آس کا کینسر نہ ہوتا‘‘۔ غریبوں میں بارہ ہزار روپے کی تقسیم عمران خان کی حکومت ایک عظیم کارنامہ باور کرارہی ہے۔ اس کارنامے کی حقیقت دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے۔ کیسی کیسی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں عمران خان سے۔ کیسے کیسے بلند بانگ دعوے انہوں نے کیے تھے۔ کیسے کیسے خواب دکھائے گئے تھے۔ اس بحر کی تہہ میں کیچڑ ہی کیچڑ ہوگا اور اتنا، تصور بھی نہیں تھا۔ ایک عشرے سے زائد ہورہا ہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام چل رہا تھا۔ نواز شریف اور بے نظیر دشمنی اور عداوت کی ایک تاریخ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود نواز شریف نے اس پروگرام کو بے نظیر کے نام ہی سے چلنے دیا۔ عمران خان نے اس پروگرام سے بے نظیر کو خارج کرکے جگہ جگہ اپنی تصاویر چسپاں کرادیں۔ ذاتی تشہیر کو وہ بھی ہر مرض کی دوا سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے احساس پروگرام بھی شروع کردیا۔ عمران خان حکومت نے یہ کیا کہ بے نظیر پروگرام اور احساس پروگرام کو یکجا کرکے 200ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔ دو سو ارب روپے کی حقیقت یہ ہے کہ سو ڈیڑھ سو ارب روپے کا بے نظیر سپورٹ پروگرام تو پہلے ہی چل رہا تھا۔ بے نظیر پروگرام میں ہر ماہ لوگوں کو ڈیڑھ دو ہزار روپے ملتے تھے۔ تین چار مہینے میں پانچ چھ ہزار روپے مل جاتے تھے۔ احساس پروگرام کو شامل کریں تو آٹھ نو ہزار بن جاتے ہیں۔ عمران خان حکومت نے اس رقم میں تھوڑا سا اضافہ کرکے بارہ ہزار روپے کردیے، اور جو رقم تھوڑی تھوڑی کرکے چار مہینے میں دی جاتی تھی وہ یکمشت دے دی۔ یاد رہے بارہ ہزار روپے کی رقم چار مہینے کے لیے دی گئی ہے۔ تین ہزار روپے مہینہ۔ بجٹ میں عوام کو دینے کے لیے جو کچھ پہلے ہی موجود تھا انہوں نے وہی ایک نئی شکل میں اکٹھا کرکے عوام کو دے دیا۔ بات وہیں کی وہیں ہے لیکن کیا شور ہے کیا ہنگامہ ہے۔ جب کہ 200ارب روپے میں سے صرف 30فی صد دیا گیا ہے۔ باقی کا کچھ پتا نہیں۔ دو مہینے گزر گئے ہیں۔ پروگرام میں مزید لوگوں کی شمولیت بھی ختم کردی گئی۔ نعروں وعدوں اور بڑھکوں کا ماضی میں بھی ایسا ہی حال ہوا تھا لیکن عمران خان کی حکومت نے اس معاملے میں کمال ہی کردیا۔ حکومت نہ ہوئی شو بزنس ہوگئی۔ تشہیر ہی تشہیر۔ جھوٹ ہی جھوٹ۔
عمران خان کو لانے والوں اور عمران خان کے درمیان ایک پیج پر ہونے کی کہانی چل رہی تھی۔ کچھ عرصے سے یہ سلسلہ بھی موقوف ہے۔ اب اس طرح کے دعوے نہ کیے جارہے ہیں اور نہ ہی فریقین کے گالوں پر ڈمپل نظر آرہے ہیں۔ فوج تو درکنار عمران خان صوبائی حکومتوں سے بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ حادثوں کے مواقع پر، تباہی اور بربادی کے حالات میں دشمنیاں فراموش کردی جاتی ہیں۔ قومیں یک جان ہوکر مشکلات کا مقابلہ کرتی ہیں لیکن عمران خان اس معاملے میں بھی منفرد ہیں۔ کسی معاملے میں بھی وہ کسی کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہیں۔ نہ وہ صوبوں سے مشاورت کرتے ہیں اور نہ باہم مل کر قدم اٹھاتے ہیں۔ 22مارچ کی سہ پہر3بجکر 30منٹ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈائون نہ کرنے کے فوائد بیان کیے۔ 20منٹ بعد 3بجکر 50منٹ پر وزیراعلیٰ سندھ نے صوبے میں وسیع پیمانے پر لاک ڈائون کرنے کا اعلان کردیا اسی دن شام 5بجے گلگت بلتستان حکومت بھی مکمل لاک ڈائون کی طرف چلی گئی۔
رات 8بجکر 45منٹ پر سندھ حکومت نے ہر قسم کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کردی۔ اس کے چند ہی گھنٹے بعد رات ایک بج کر بیس منٹ پر پنجاب حکومت فوج سے مدد طلب کرتی ہے کہ وہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرے۔ اس سے پہلے رات ایک بجے بلوچستان حکومت اعلان کردیتی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 245کے تحت وہ بھی فوج کی مدد چاہتی ہے۔ 23مارچ کو کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی جس کے بعد اعلان کیا گیا کہ کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلائو کو روکنے کے لیے پاک فوج کا ادارہ اپنی خدمات پیش کرے گا۔ اتنی بڑی وبا کو دیکھیے جس نے دنیا کو ہلاکر رکھا ہوا ہے اور عمران خان کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کی صورتحال ملاحظہ کیجیے۔ سندھ حکومت سے محاذ آرائی کا وہ حال ہے کہ وفاقی وزراء پر لازم ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاوں پر وزیراعلیٰ سندھ کے لتے لیں۔ مراد علی شاہ کو عمران خان خود بھی لاک ڈائون کرنے پر ہدف بناتے رہتے تھے۔ اس پر بھی تسلی نہیں ہوئی تو خان صاحب باقاعدہ طور پر کراچی اٹھ کر آگئے ہیں۔ تاکہ سندھ میں جو بھی فلاحی کام ہوں وہ کورونا ٹائیگر کے ذریعے ہوں۔ عمران خان کی جے جے ہو۔ مراد علی شاہ کے لیے کلمہ خیر اور واہ واہ عمران خان کی برداشت سے باہر ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پروگرام ہو یا صوبائی حکومتوں کے پروگرام ان سب پر تختیاں عمران خان اور تحریک انصاف کی لگانی ہیں۔
اس شدید ترین بحران کے موقع پر بھی عمران خان مکمل طور پر سیاست کررہے ہیں۔ ان کی منتقم مزاج طبیعت کسی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نہ وہ بے نظیر کا نام برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں نہ مراد علی شاہ کا۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا تو درکنار وہ بات کرنے پر تیار نہیں۔ ن لیگ ہی کو نہیں پیپلز پارٹی کو بھی وہ تباہ حال دیکھنا چاہتے ہیں۔ سب کچھ خود ہی کرنا ہے وہ بھی جینوئن طریقے سے نہیں۔ دوسری پارٹیوں کے پروگرامز چرا کر اپنے نام منسوب کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ عمران خان کی حکومت لوگوں سے ہمدردی کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے بے حال ہے۔ ایک طرف کورونا دوسری طرف عمران خان کے طرز حکمرانی نے ملک میں وہ دبڑ گھونس مچائی ہوئی ہے کہ اللہ کی پناہ۔