موجودہ حالات اور ہمارا قومی رویہ

249

حسن افضال
کورونا وائرس نے انسانوں کو خدا یاد دلا دیا اْن انسانوں کو بھی جو خود کو خدا سمجھنے لگے تھے زمین پر خدا بننے والے بھی آج معبود حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور نہایت آہ وزاری کے ساتھ اْس کی بارگاہ میں دْعائیں کرتے اور اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس عالمی وبا سے محفوظ رہنے کے لیے جہاں توبہ و استغفار کا سلسلہ زور وشور سے جاری ہے اور ہر فرد احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہوئے ہے وہیں بدقسمتی سے ان حالات میں بھی ملک میں اشیائے صرف پر زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹنے کے رْحجان کا مشاہد عام ہے جبکہ انتظامیہ کی جانب سے اس ضمن میں ٹھوس اقدامات مفقود ہیں۔ دوسری جانب صاحب ثروت افراد راشن اور دیگر اشیاء ضروریہ کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اپنے گھروں میں جمع کر رہے ہیں۔ چند دن قبل راشد منہاس روڈ پر واقع ’’امتیاز‘‘ ڈپارٹمینٹل اسٹور کے سامنے سے گزر ہوا تو وہاں عوام کا جم غفیر نظر آیا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہرشے وہاں بلا معاوضہ دستیاب ہو۔ یہ رویہ نا صرف ہماری اضطرابی کیفیت بلکہ ایمان کی کمزوری بھی ظاہر کرتا ہے۔ ان حالات میں بھی ہمیں صرف اپنی اور اپنے متعلقین کی فکر لا حق ہے اور آج بھی ذاتی نمودو نمائش کا شوق ہماری زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ کسی ضرورت مند کو آٹے یا راشن کا تھیلا دیتے ہوئے اخبارات میں تصویریں شائع ہو رہی ہیں، خبریں چھپ رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر سیلفیاں نظر آرہی ہیں جبکہ ہمارے دین کی تعلیم ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نا ہو۔ اس تمام تر صورتحال میں پیشہ ور گداگر سب سے زیادہ فائدے میں ہیں جبکہ عزت دارسفید پوش طبقہ اس غیر معمولی صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے کیونکہ نہ تو وہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے اور نہ ہی حکومت اور فلاحی اداروں کی جانب سے ایسے افراد کو مدد فراہم کرنے کا تاحال کوئی موثر انتظام نظر آتا ہے۔ ان حالات میں ہمارا دینی واخلاقی فریضہ ہے کہ ہم سب اپنے قرب و جوار پہ نظر رکھیں اور حقیقی ضرورت مندوں کی مدد کریں۔
ہمارے سیاسی رہنما جو انتخابات کے زمانے میں ہر گھر پر ووٹ کی بھیک مانگنے کے لیے دستک دیتے نظر آتے ہیں آج ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ سوائے حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کے آج کوئی سیاسی رہنما یا اس کے کارکن مستحق افراد کی اشک شوئی کے لیے اپنے حلقے میں دکھائی نہیں دیتے، سب قومی خزانے پر نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ بوجھ بنے ہوئے ہیں، میدان سیاست کے جغادری بھاشن دے رہے ہیں کہ وہ اس نازک صورتحال میں عوام کے ساتھ ہیں لیکن ان جغادریوں میں سے کوئی اپنی جیب ہلکی کرنے پر تیار نہیں۔ نواز شریف شہباز شریف، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، سعد رفیق چودھری شجاعت، مونس الٰہی، آصف زرداری، بلاول زرداری، یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف اعتزاز احسن اور ان جیسے دیگر رہنما اگر اپنے ذاتی خزانے سے زیادہ نہیں صرف ایک ایک کروڑ روپے کورونا فنڈ میں دے دیں تو ان کی دولت کے انبار کم نہیں ہوں گے۔ اب تک یہ رہنمائے کرام اور ان کی قبیل کے دیگر معززین قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں، آج اس مشکل گھڑی میں وہ قوم کے لیے اتنا ایثار بھی نہیں کرسکتے؟۔ ہماری ان تمام احباب سے مودبانہ گزارش ہے کہ محض زبانی جمع خرچ اور بلند بانگ دعووں پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھائیں۔
حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ ان حالات میں جو کچھ کر رہی ہے وہ شفاف طریقے سے اور تیز رفتاری سے کرے۔ یہ وقت حکومت سے پنجہ آزمائی کا نہیں بلکہ ملک و قوم کو اس کٹھن صورتحال سے متحد ہوکرہی نکالا جاسکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں اور رہنمائوں کی بھی دینی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ فرقہ وارانہ علاقائی اور لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو پیش نظر رکھیں اور کسی بھی قسم کے تعصب سے اجتناب کریں۔ اس ضمن میں حکومتی حلقے بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حزب اختلاف اور دیگر جماعتوں سے قریبی رابطے رکھیں اور اْن کے مشوروں کو اہمیت دیں تاکہ اتحاد ملت کی راہ میں حائل روکاوٹیں دور کی جا سکیں۔ قومی اور صوبائی حکومتوں میں شامل تمام وزارء اور مشیران اپنی ایک ماہ کی تنخواہ کورونا فنڈ میں دیں تاکہ دیگر تمام سیاسی حلقوں اور عوام الناس پر ایک اچھا تاثر قائم ہو اور وہ بھی اس کی تقلید کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ
وزیراعظم اپنے وزراء سینٹرز اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو مخالفانہ بیان بازی سے باز رکھیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں تا کہ سیاسی منافرت کی مسموم فضا ختم ہو سکے۔
آخر میں وزیراعظم سے گزارش ہے کہ وہ اہل کراچی کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں اور اْنہیں کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کی ان حالات میں بھی زائد بلنگ کی شکل میں ماہانہ لوٹ مار سے نجات دلائیں۔ لاک ڈاون کی وجہ سے زیادہ تر دفاتر، بند ہیں، دکانوں اور ریسٹورنٹس پر تالے لگے ہوئے ہیں تمام شاپنگ سینٹرز جہاں رات گئے تک خریداروں کی آمدو رفت جاری رہتی تھی وہاں ویرانی چھائی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی مانگ میں پچیس فی صد تک کمی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی کے الیکٹرک اور گیس کمپنی ایوریج بلنگ کرہی ہیں اور اس نازک صورتحال میں بھی ناجائز منافع خوری سے باز نہیں آرہی ہیں۔ کے ای ایس سی کو نجی ملکیت میں دیکر کراچی کے عوام کے ساتھ معاشی دہشت گردی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود اس مرکھنے سانڈ کو آج تک کھلا چھوڑ رکھا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس ادارے پر ملک کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ حکومت نے کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک ختم نہ کیا اور اس ادارے کو لگام نہ ڈالی تو جلد یا بدیر اس کے بڑے ہولناک نتائج برآمد ہوں گے اور پھر نہ یہ حکومت رہے گی اور نا کے الیکٹرک، لہٰذا حکومت کے اپنے مفاد ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور کے الیکٹرک کو قومی ملکیت میں لے کر کراچی کے عوام کو ہر ماہ کی معاشی دہشت گردی سے نجات دلائے۔