کورونا پر وفاق اور سندھ کی سیاست

417

ابھی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مساجد بند کرنے کی دھمکی کو ایک روز گزرا تھا کہ ملکی چند مشہور ڈاکٹروں نے تشویش ظاہر کی کہ لاک ڈائون مذاق بن گیا ہے تاجر تعاون کریں علما مساجد میں نماز کا فیصلہ واپس لیں ان ڈاکٹروں نے 16 اپریل سے 22 اپریل کے درمیان کورونا کیسز میں اضافے کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ لاک ڈائون نہ کیا تو مشکل بڑھ جائے گی۔ اسپتالوں میں 80 فیصد جگہ بھر گئی ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ سڑکوں پر مریضوں کا علاج کرنا پڑے۔ اس خبر کے ساتھ وزیر صحت سندھ کی خبرہے کہ مئی کے آخر تک کورونا مریضوں کی تعداد عروج پر ہوگی۔ کورونا کے پھیلائو پر ہر طبقہ فکر کو تشویش ہے ڈاکٹروں کی تشویش بھی بجا ہے لیکن جو چیز قابل توجہ ہے وہ مساجد پر ہر ایک کی تشویش ہے۔ اگر کوئی اس کی نشاندہی بھی کرے تو کہا جاتا ہے کہ صحت کے معاملے کو مذہبی رنگ دیا جارہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ رنگ حکومت کی جانب سے دیا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ بھی اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں تبلیغی جماعت کو خصوصی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جب حکومت اور علمائے کرام کی نشستوں کے بعد نمازوں اور تراویح کے بارے میں ایک فیصلے پر پہنچ گئے تو اس کے بعد کسی قسم کی نئی صورتحال پیدا نہیں ہونی تھی۔ یہی واقعہ لاک ڈائون کے ابتدائی دنوں میں ہوا تھا جب حکومت اور علما نمازوں سے متعلق ایس او پی جاری کرکے اعلان کر چکے تو ایک دن قبل حکومت سندھ نے نماز جمعہ پر پابندی لگا دی اور لاک ڈائون ساڑھے تین گھنٹے کے لیے نہایت سخت کر دیا اس کے نتیجے میں بعض مساجد میں بدمزگی بھی ہوئی اس کا الزام بھی مسجد کے امام اور نمازیوں کے سر منڈھ دیا گیا۔ اب کوئی احتجاج کرے تو مذہب بدنام۔ تازہ پریس کانفرنس بھی اس رویے کی تکرار ہے۔ یعنی علما اور صدر مملکت کے درمیان مذاکرات، وزیراعلیٰ اور علما کے درمیان مذاکرات وزیراعظم اور علما کے مذاکرات صدر مملکت نے 20 نکات کا علان کیا۔ علما نے مکمل تعاون کیا اور جو پابندیاں لگائی گئیں ان کو تسلیم کیا بلکہ فوری طور پر مساجد میں اس پر عمل بھی کر دیا۔ لیکن چند روز بعد ڈاکٹروں کی پریس کانفرنس اور اس میں بھی نشانہ مساجد، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس بحث میں بھی پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کورونا کے کیسز کتنے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پورے ملک میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی مثبت کیسز کی تعداد دس ہزار کے اندر ہے۔ جب کہ یہ الزام الگ ہے کہ کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ زبردستی کرایا جارہا ہے ۔ لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ پنجاب کے سابق ترجمان پی ٹی آ ئی کے رہنما شہباز گل نے الزام لگایا کہ ڈاکٹروں نے حکومت سندھ کے کہنے پر پریس کانفرنس کی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ سندھ حکومت کورونا پر سیاست سے تھک گئی تو ڈاکٹروں کو آگے کر دیا۔ اس الزام کی تو تصدیق ہو چکی ہے کہ سندھ حکومت کے افسران اور اعلیٰ حکومتی شخصیات فیکٹریاں اور دکانیں کھولنے کے لیے رشوت طلب کر رہے ہیں۔ اس رویے سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جو کچھ بھی کہا جارہا ہے اور جو کچھ بھی بتایا جارہا ہے۔ وہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی لڑائی ہے جس کا سارا نقصان عوام کو ہوگا۔ اگر وفاق کا موقف درست اور سندھ حکومت کا غلط ہے تو دونوں آپس میں بیٹھ کر کسی نتیجے پر پہنچ جائیں ۔ سارا زور علمائے کرام پر کیوں۔ حکومت سندھ نے بھی جمعرات کے روز علمائے کرام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ یہ فیصلہ علمائے کرام کا تو نہیں تھا۔ صدر مملکت و وزیراعظم خود وزیراعلیٰ بھی ان فیصلوں میں شریک تھے۔ اب اس پر نظرثانی کا مطالبہ علمائے کرام سے نہیں صدر مملکت اور وزیراعظم سے کیا جانا چاہیے۔ لیکن چونکہ یہ سیاست ہے اس لیے دونوں طرف سے غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ جہاں تک ٹیسٹ اور مثبت کیسز کا تعلق ہے تو پہلے ٹیسٹ کی استعداد کم تھی اب زیادہ ہو گئی ہے لیکن اسپتالوں میں جگہ کیوں نہیں ہے۔ ایکسپو سینٹر میں ایک ہزار بستر والے خصوصی مرکز برائے کورونا میں سو سے بھی کم مریض ہیں۔ ریلوے نے بھی خصوصی مرکز بنایا تھا۔ اس کے علاوہ اسکول کالج خالی پڑے ہیں ان میں بھی یہ مراکز بنائے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں سڑکوں پر مریضوں کا علاج کرنا پڑے۔ ذرا کوئی ڈاکٹر یہ دعویٰ تو کر دے کہ اسپتالوں میں مریضوں کا علاج کیا جاتاہے۔ عام بیماریوں کے مریض اس قدر تکلیف میں ہیں کہ بیان سے باہر۔ تمام اسپتالوںکو کورونا کا سودا بیچا جارہا ہے۔ مریضوں کو دھوپ میں بٹھا کر ان کی اسکیننگ کے لیے انتظار کرایا جاتا ہے۔ شدید دھوپ اور گرمی کے باعث پہلے سے بیمار فرد مزید بیمار ہو جاتا ہے پھر ایسے مریض کو کورونا کا حملہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔ بہرحال عوام کو اس سے غرض نہیں ہے کہ ڈاکٹر جو خوف دلا رہے ہیں وہ درست ہے یا وزیراعظم جو لالی پاپ دے رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ افسوسناک اور بدترین بات یہ ہے کہ وفاق اور سندھ کی حکومتیں کورونا پر سیاست کی انتہا کر چکے ہیں اور دونوں کی سیاست کا نشانہ مذہب ہے۔ عوام کا کیا قصور حکومت آگے بڑھ کر اپنے سر سارا الزام لے اور تمام مساجد بند کر دے عوام، امام مسجد اور علما پر زور نہ ڈالے۔اگر وفاق اور صوبوں کے درمیان یہی سیاست جاری رہی تو اس امر کے خدشات موجود ہیں کہ عوام سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔ امریکا ، لبنان سمیت دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے شروع ہوچکے ہیں ۔ امریکا اور یورپی ممالک میں تو مظاہرین مہذب انداز اختیار کرتے ہیں مگر پاکستان کا حال سب ہی جانتے ہیں ۔ یہ بے ہنگم ہجوم جب باہر نکلے گا تو کیا گُل کھلائے گا ، اس کا اندازہ سب ہی کرسکتے ہیں ۔ پاکستان میں احتجاج کا مطلب ہنگامے ہیں اور ہنگاموں کا ایک ہی مطلب ہے کہ سرکار اس سے نمٹنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گی ۔ یعنی عوام کورونا سے بھی مررہے ہیں ، لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بھوک سے بھی مررہے ہیں اور تلاش معاش کے حق کے لیے باہر نکلنے پر سرکار کی لاٹھی گولی سے بھی یہی عوام مریں گے ۔ سرکار آخر کوئی محفوظ راستہ عوام کو دینے پر کیوں تیار نہیں ہے ۔ کیوں معاملات بند گلی تک لے جائے جارہے ہیں ۔ بدھ کو ہی کراچی کی آئرن مارکیٹ کو کھولنے کے جرم میں چھ تاجر رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا تھا جنہیں جمعرات کو 14 روز کے جوڈیشیل ریمانڈ پر جیل روانہ کردیا گیا ہے ۔ اب دیگر مارکیٹوں کے رہنماؤں نے بھی یہی دھمکی دی ہے کہ اگر یکم رمضان تک مارکیٹیں کھولنے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ از خود فیصلہ کرلیں گے ۔ اسے نوشتہ دیوار سمجھنا چاہیے اور عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ معاملات خراب ہونے سے پیشتر ہی سنبھال لیے جائیں ۔