گھریلو تنہائی…. کورونا اور امداد

267

مرزا غالب نے کہا تھا
کوئی تنہائی سی تنہائی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
لیکن جو تنہائی ہمیں کورونا نے دی ہے وہ مرزا غالب کی تنہائی سے بالکل مختلف ہے اس میں دشت کو دیکھ کر گھر یاد نہیں آتا بلکہ دشت کا رُخ کرنے کی بھی جازت نہیں ہے۔ حکم ہے کہ بس گھر میں رہو، گھر سے باہر نہ نکلو۔ گھر کے جملہ افراد کو گھر میں رہنے کی سختی سے ہدایت ہے، کوئی شخص گھر سے بلا ضرورت باہر نہیں جاسکتا، نہ ہی کوئی دوسرا گھر کے اندر آسکتا ہے۔ اس طرح گھر کے تمام افراد ایک ہی چھت تلے محصور ہیں۔ ان میں بچے بھی ہیں، بوڑھے بھی، جوان بھی، عورتیں بھی ہیں اور لڑکیاں بالیاں بھی۔ گویا گھر میں ایک میلہ سا لگا ہے۔ کہنے کو یہ تنہائی ہے لیکن ایسی تنہائی جس میں گہما گہمی ہے، رونق ہے، آتے جاتے ایک دوسرے سے ٹکر ہورہی ہے، کھوے سے کھوا چھل رہا ہے، گھر میں اگرچہ شور نہیں ہے لیکن گھر سائیں سائیں بھی نہیں کررہا، بول رہا ہے، گھر کے لوگ سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں لیکن ان کی باتیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ پانچوں نمازیں گھر میں باجماعت ادا ہورہی ہیں، کچھ لوگ مسجد میں جاسکتے ہیں لیکن وہ بھی بزرگوں کی خاطر گھر ہی میں نماز باجماعت کو ترجیح دیتے ہیں، نماز فجر کے بعد ذکر اذکار اور تلاوت قرآن کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ گھر میں رجوع الی اللہ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ورنہ پہلے ایسا کہاں تھا سب اپنی ذات میں مگن تھے۔ رات کو دیر سے سونا صبح تاخیر سے اُٹھنا، اگر سورج نہیں نکلا تو فجر کی چار رکعتیں مارا ماری میں پڑھنا، جلدی جلدی تیار ہونا، ناشتہ کرنا اور اسکول کالج اور دفتر روانہ ہوجانا۔ یہ روز کا معمول تھا لیکن اب اس معمول میں ٹھیرائو آگیا ہے، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، دفاتر، مسجدیں، مدارس، دکانیں سب بند ہیں، کسی کو کہیں جانے کی جلدی نہیں ہے، سب کام سلیقے سے ہورہا ہے۔
ہاں اس ’’تنہائی‘‘ میں خاتون خانہ کی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں، یہاں ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ گھر میں خواہ کتنی ہی عورتیں ہوں ’’خاتون خانہ‘‘ صرف ایک ہوتی ہے وہ جس کے ہاتھ میں کچن ہوتا ہے جو کھانا پکاتی اور گھر کے جملہ افراد کو کھلاتی ہے۔ پیٹ پوجا ایک ایسا عمل ہے جس کے آگے سارے عمل اور ساری مصروفیتیں ہیچ نظر آتی ہیں۔ گھر میں محصور لوگوں کی اس عمل میں دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے، صبح اُٹھتے ہی پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ آج ناشتہ کیا کریں گے؟ خاتون خانہ حسب معمول جواب دیتی ہیں ’’وہی جو روز کرتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے‘‘۔ بڑا لڑکا آواز لگاتا ہے ’’امی ہمیں معلوم ہے آپ ہمیشہ یہی جواب دیتی ہیں، ہم سے روز روز انڈا پراٹھا نہیں کھایا جاتا۔ امی آپ کو معلوم ہے پڑوسیوں نے انڈا کھانا چھوڑ دیا ہے۔ باہر کہہ رہا تھا کہ انڈے سے بھی وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے، مارکیٹ میں انڈے کی قیمت گرگئی ہے کوئی خرید ہی نہیں رہا‘‘۔
خاتون خانہ جواب دیتی ہیں ’’چلو انڈے سے جان چھوٹی۔ رات کا سالن ہے اس سے ناشتہ کرلینا‘‘۔ چھوٹی بیٹی یہ سنتے ہی بھڑک اُٹھتی ہے ’’امی ناشتہ تو ڈھنگ کا ہونا چاہیے آپ حلوہ پوری کیوں نہیں بنا دیتیں؟‘‘۔
خاتون خانہ ڈانٹتی ہیں ’’بس بس زیادہ حکم نہ چلائو۔ جو میسر ہے اس پر گزارا کرو‘‘۔ اور سب کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔
ہاں ناشتے کے معاملے میں ہم بڑے میاں کو تو بھول ہی گئے۔ وہ اپنا ناشتہ خود تیار کرتے ہیں۔ جو کا دلیا دودھ میں پکاتے ہیں اس میں تین کھجوریں ڈالتے ہیں۔ جب دلیا تیار ہوجاتا ہے تو اس میں دو چمچ زیتون کا تیل اور ایک چمچ شہد بھی ملاتے ہیں وہ اسے تلبینہ کہتے ہیں۔ یہ نسخہ نبی پاکؐ کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ روایت ہے کہ دلیا بنانے کی یہ ترکیب سیدنا جبرئیل ؑ نے نبی کریم ؐ کو بتائی تھی البتہ زیتون کا تیل اور شہد بعد کا اضافہ ہے۔
لیجیے صاحب ناشتے سے فارغ ہوگئے۔ اب سب لوگ اپنے اپنے موبائل پر آج کی خبریں دیکھ رہے ہیں۔ امریکا پر بڑا کڑا وقت آیا ہوا ہے، روزنہ دو ہزار افراد مر رہے ہیں، صدر ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت پر برہم ہو کر اس کے فنڈز روک دیے ہیں اور ان کا الزام ہے کہ اس ادارے نے کورونا وائرس کے حوالے سے امریکا کو درست معلومات فراہم نہیں کیں۔ حالاں کہ یہ ادارہ اس وائرس کے معاملے میں خود اندھیرے میں تھا۔ خبروں سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں بھی وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ خبروں سے یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ جو لوگ عام بیماریوں سے یا طبعی موت مر رہے ہیں انہیں بھی کورونا وائرس کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔ واٹس ایپ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک نوجوان بتا رہا ہے کہ اس کے والد کا کینسر کے مرض میں انتقال ہوا لیکن سرکاری اہلکاروں نے یہ کہہ کر لاش پر قبضہ کرلیا کہ یہ کورونا کا مریض تھا ہم اسے خود گڑھا کھود کر دفنائیں گے۔ لواحقین نے منت سماجت کی تو ایک لاکھ روپے لے کر لاش دینے پر آمادہ ہوئے، جب کہ پولیس والوں نے بیس ہزار روپے لے کر میت کو قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دی۔ خیر یہ سب کچھ تو ہمارے ہاں معمولات زندگی میں شامل ہے، اس پر گلہ کیا۔ البتہ حکومت کورونا کے نام پر جو کچھ کررہی ہے اس سے سوال اُٹھ رہا ہے۔ حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کو دہاڑی دار مزدوروں اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ہنر مندوں کی بڑی فکر ہے جو لاک ڈائون کے سبب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور ان کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ چناں چہ انہیں فاقہ کشی سے بچانے کے لیے وفاق کی سطح پر امدادی پروگرام شروع کیا گیا ہے اور ہر مستحق خاندان کو بارہ ہزار نقد مل رہے ہیں۔ حکومت اب تک اس مد میں 57 ارب روپے تقسیم کرچکی ہے لیکن وہ یہ بتانے سے گریزاں ہے کہ یہ مستحقین کون ہیں، کہاں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بھی جو اس پروگرام کی مدار المہام ہیں کچھ بتانے سے انکار کررہی ہے لوگ شبہ ظاہر کررہے ہیں کہ کہیں یہ خلائی مخلوق تو نہیں جو زمین پر نہیں رہتی، یہ شبہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ جو حقیقی مستحقین اور سفید پوش ہیں وہ بدستور رُل رہے ہیں اور ان سے کہا جارہا ہے کہ وہ اس امداد کے اہل نہیں ہیں۔ پتا نہیں امداد کے لیے اہلیت کا معیار کیا ہے؟ اس کورونا کمپٹیشن میں وفاق اور سندھ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ وفاق نقد امداد تقسیم کررہا ہے تو سندھ حکومت کھانے پینے کا امدادی سامان بانٹ رہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ ایک ارب کا امدادی سامان مستحقین میں تقسیم کرچکی ہے لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سامان خلائی مخلوق میں تقسیم کیا گیا ہے جس کا سندھ کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ زمین پر جن لوگوں کو یہ سامان دیا گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ کھانے کے قابل نہیں ہے۔
یہ ہے وہ صورت حال جس میں عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ حکومت وفاقی ہو یا صوبائی کہیں بھی شفافیت نہیں ہے۔ محترم چیف جسٹس نے بڑی تفصیل سے ریمارکس دیے ہیں جن کا اعادہ ضروری نہیں۔ بس یہ کہنا کافی ہے۔
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
لیجیے صاحب بڑوں کے اخبارات پڑھنے اور بچوں کے لوڈو کھیلنے میں کئی گھنٹے مک گئے اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے، خاتون خانہ نے گھر والوں سے رائے لی ہے کہ کیا پکایا جائے۔ سب کی متفقہ رائے ہے کہ بریانی چلے گی۔ تو صاحب آئیے ہم بھی بریانی کا انتظار کرتے ہیں۔