سیاسی بھاڑ میں اکیلا چنا

362

شیخ رشید کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین ہوں، عمر شہریار ہوں یا محبوب سلطان یا پھر خسرو بختیار ان سب کے خلاف کارروائی ضرور کی جائے گی۔ کیوںکہ عمران خان نے ببانگ دہل کہا ہے اور بار بار کہا ہے کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد جہانگیر ترین اور عمران خان کے تعلقات کس نہج پر ہوں گے اور ان کی نوعیت کیا ہوگی۔ مگر یہ ضرور کہوں گا کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دشمن کل کے دوست ہوتے ہیں یہی سیاست ہے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ چینی کا بحران نیا نہیں ہے میں بارہا اپنی گنہگار آنکھوں سے یہ منظر دیکھ چکا ہوں۔ شیخ جی! آپ ہی کی آنکھیں ان مناظر کو دیکھنے کی گنہگار نہیں پوری قوم کی آنکھیں اس معاملے میں گنہگار ہیں۔ کہتے ہیں شوگر برآمد کنندگان نے تین ارب کی سبسڈی بھی لی اور قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ گویا چپڑی چپڑی اور دو دو! رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔ جہانگیر ترین کے گروپ میں چھپن کروڑ اور عمر شہریار نے پینتیس کروڑ کی سبسڈی لی۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ سیکرٹری خوراک کی وارننگ کے باوجود چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے سبسڈی کی سخت مخالفت کی مگر نقارخانے میں ان کی آواز چنڈو خانے کی آواز بن کر رہ گئی۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ چینی کے بحران پر جیسے تیسے قابو پا لیا جائے گا مگر اب آٹے کا بحران آنے والا ہے اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ شیخ جی کہتے ہیں مجھے پورا پورا یقین ہے کہ عمران خان ملک کی ڈوبتی کشتی پار لگا دے گا۔ ممکن ہے کہ شیخ صاحب کا یقین ان کی شیخیت کا مظہر ہو مگر قوم اس حقیقت سے واقف ہے کہ عمران خان وا قعی! مڑ کر نہیں دیکھتے۔ پورے کے پو رے گھوم جاتے ہیں۔ اسی لیے بعض سیاسی مبصرین اور سیاسی رہنما انہیں یوٹرن خان کہتے ہیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جن لوگوں نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کیا ان کی وزارت بدل دی گئی ہے۔ گویا وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں بلاول زرداری کا تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے کہ ان کے اقتدار کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ڈور کھینچ لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ڈھیل دے دیتا ہے۔ آٹا چینی کے بحران کے ذمے داران جہانگیر ترین، عمر شہریار، خسرو بختیار، محبوب سلطان اور چودھری سمیع اللہ سمیت کئی اہم نام شامل ہیں۔ مگر استعفا صرف چودھری سمیع اللہ نے دیا۔ ہم نے انہی کالموں میں بارہا لکھا ہے کہ جب تک مڈل کلاس کے افراد اقتدار میں نہیں آئیں گے ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہی نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سے بڑی توقع تھی مگر ان کی کابینہ میں جو لوگ شامل ہیں وہ ایک ایسا سیاسی بھاڑ ہیں جو ملکی وسائل کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور عمران خان اکیلا چنا ہے جو اس سیاسی بھاڑ کو نہیں توڑ سکتا۔