2020 کے پہلے ماہ جنوری میں چین میں نمودار ہونے والے کورونا وائرس نے تقریباً ساڑے تین ماہ کی مدت میں پاکستان سمیت دنیا کے 203 ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک لاکھ 90 ہزار 549 افراد جانیں لے لی ہیں جبکہ 27 لاکھ 4 ہزار 676 افراد بیمار ہوچکے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں اس کے 11 ہزار 57 کیسز سامنے آئے اور 234 افراد جاں بحق ہوچکے۔ یہ اعداد و شمار 24 اپریل تک کے ہیں۔
رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے اور آپ جب یہ کالم پڑھ رہے ہوںگے پہلا روزہ ہوگا۔ برکتوں اور رحمتوں والے ماہ مبارک کے آغاز کے ساتھ ہی بڑی خوشخبری یہ ہے کورونا کو ختم کرنے کے لیے پاکستان بڑا کارنامہ انجام دے چکا ہے۔ اس ضمن میں حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق الحمدللہ پاکستان کی نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈی نیشن کی زیر نگرانی خدمات انجام دینے والی نیشنل بائیوتھیکس کمیٹی نے کورونا وائرس کے مریضوں کے فوری علاج کے لیے تیار کی جانے والی دوا کی حتمی منظوری دے دی ہے۔ جس کے بعد اسے مریضوں کے استعمال اور مارکیٹ میں پیش کرنے کی اجازت کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈی آر پی) کو بھیج دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ دوائی جو دراصل ایک اینٹی کورونا وائرس گلوبیولن انجکشن ہے اور اسے ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (ڈی یو ایچ ایس) کراچی کی ریسرچ ٹیم نے تخلیق کیا ہے جس کی سربراہی پروفیسر شوکت علی نے کی تھی۔ پروفیسر شوکت علی سے جب ’’جسارت‘‘ نے ان کی تیار کردہ ’’گلوبیولن‘‘ کی مزید پیش رفت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اس بارے میں کچھ بھی بتانے سے انکار کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’’اگرچہ یہ دوا میری قیادت میں ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ریسرچ ٹیم نے دریافت کی تھی مگر اس کے باوجود میں براہ راست میڈیا کو یا کسی اخبار نویس کو اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے کا اختیار نہیں رکھتا، اس کیے آپ سے معذرت چاہتا ہوں‘‘۔ تاہم جب ’’نمائندہ جسارت‘‘ نے وزارت قومی صحت کے ذمے دار افسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنا نام اور عہدہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وزارت کی ’’نیشنل بائیوتھیکس کمیٹی نے ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے انجکشن کو کورونا وائرس کے متاثرہ مریضوں کے لیے کارآمد تسلیم کرتے ہوئے اسے کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دے دیا ہے۔ جس کے بعد اب اسے حتمی مرحلے یعنی اس کو انسان کے لیے استعمال کرنے اور فروخت کے لیے مارکیٹ کرنے کی منظوری کے واسطے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو بھجوادیا ہے۔ توقع ہے کہ ڈریپ جلد ہی اپنا کام مکمل کرلے گی جس کے بعد پاکستان نہ صرف کورونا وائرس کے علاج کا انجکشن بنانے والا دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا بلکہ یہاں سے اس کی پروڈکشن اور سپلائی بھی شروع ہوجائے گی۔ معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کی اہم شخصیات جلد ہی اس انجکشن کے حوالے ایک پریس کانفرنس میں مزید تفصیلات بتائیں گی۔ کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے بعد ملک کے سائنسدانوں کی طرف سے انجکشن کو کامیابی کے ساتھ تیار کرنا ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ اسے جلد سے جلد منظر عام پر لانا چاہیے۔ کیونکہ امریکا سمیت دنیا کے بیش تر ممالک یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ کورونا کے علاج کے لیے ویکسین جلد تیار کرلیں گے۔ ہمارے ملک کی یہ خوش قسمتی ہے کہ یہاں بہت باصلاحیت سائنسدان ہیں جبکہ ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کے ہیڈ آف مالیکولر پتھالوجی پروفیسر ڈاکٹر سعید خان بھی اس وائرس کے علاوہ ڈینگی اور کانگو وغیرہ جیسی خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ریسرچ میں مصروف ہیں۔
سائنسدانوں کی کامیابی اپنی جگہ لیکن ستاروں اور سیاروں کا علم رکھنے والے بعض افراد کا بھی کہنا ہے کہ ’’آسمان سے ثریا ستارہ بھی جلد نمودار ہونے والا ہے جس کے نتیجے دنیا جہاں بھی کہیں کوئی وبا ہوگی وہ ختم ہوجائے گی‘‘۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو کے مطابق یہ ’’ثریا ستارہ‘‘ 12 مئی کو نمودار ہونے کے امکانات واضح ہیں۔ چونکہ 12 مئی کو رمضان المبارک کا آخری عشرہ چل رہا ہوگا اس لیے ہمیں بھی اللہ کی ذات سے یہ یقین ہے کہ اس آخری عشرے سے پہلے ہی کورونا وائرس ختم ہوجائے گا ان شاء اللہ۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے خوف پھیلنے کی صورتحال پر ملک کے نامور معالج نیورولوجسٹ و وزیراعظم کی ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے رکن اور جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر ڈاکٹر واسع شاکر نے ایک ماہ قبل ہی یہ بات کہہ دی تھی کہ ’’کورونا وائرس کے دماغ پر براہ راست اثرات نہیں پہنچتے لیکن اس وبا کے بارے میں پیدا ہوجانے والے خوف سے لوگوں کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کے خدشات ہیں‘ خوف کی وجہ سے دنیا بھر کی مارکیٹیں بیٹھ جائیں گی یہ بات اب سچ ثابت ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں روزانہ ایک ہزار افراد فالج کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن میں 400 افراد فالج کا شکار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں مگر اس مرض کا خوف کسی کو نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس وائرس سے بچائو کے لیے لوگوں کو بغیر خوفزدہ ہوئے صرف احتیاط کرنی ہے اور یہ احتیاط اس لیے ضروری ہے کسی کو معلوم ہی نہیں کہ کس جگہ اور کس کے جسم میں وائرس موجود ہے جو انہیں بھی اپنی لپٹ میں لے سکتا ہے۔ اس لیے صرف مختصر مدت کے لیے ہر کسی کو احتیاطی تدابیر کے طور پر خود کو آئسولیشن میں رکھنا چاہے۔ ڈاکٹر واسع شاکر کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کو اپنے آپ کو اور دوسروں کو اس وائرس سے بچانے کے لیے بھی گھروں تک محدود ہوجانا چاہیے اور اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انہیں تنہائی میں آرام کا موقع تو اللہ نے فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کا صرف خوف ہے اور اس کا تعلق دماغ سے ہے، سانپ کے کاٹنے سے مرنے والوں میں 70 فی صد وہ ہوتے ہیں جنہیں زہریلا سانپ نہیں ڈستا یا کاٹتا بلکہ یہ لوگ سانپ کے کاٹنے سے خوفزدہ ہوکر اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ بغیر خوف کے کورونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاط کریں ان کا کہنا تھا کہ اس وائرس سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہوتیں جتنی خوف کی وجہ سے لوگوں کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کے خدشات ہیں، وائرس پھیل کر خطرہ بنتا ہے جس سے محفوظ رہنے کا واحد حل خود دوسرے سے دور اپنے آپ تک محدود رکھنا ہوتا ہے۔