کیا بھارت میں مسلمان کورونا پھیلارہے ہیں

617

بھارت کی معروف مصنفہ اور انسانی حقوق کی علمبردار ارون دھتی رائے کا بیان کردہ منظر بہت خوف ناک ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’کورونا وبا کی آڑ میں بھارت میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں کورونا کے خلاف جدوجہد کا مذہبی پہلو بھی ہے، اس کی مثال میرٹھ کی ہے جہاں مسلم اقلیتی شہریوں کو اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ چند مقامی شخصیات کے بقول وہ مبینہ طور پر ’’کورونا جہاد‘‘ میں مصروف تھے۔ ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کووڈ 19کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے۔ جس طرح ہندوستان میں کووڈ 19مرض کو استعمال کیا جارہا ہے وہ طریقہ کافی حد تک ٹائی فائڈ کے اس مرض جیسا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں رہنے پر مجبور کردیا تھا۔ ارون دھتی رائے نے ہندوستان کے عوام اور دنیا بھر کے لوگوں سے کہا کہ وہ اس صورت حال کو ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔ مسلمانوں کو اس وبا کے ساتھ منسلک کیے جانے سے حکومتی پالیسیاں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ آپ ہر جگہ ان کی بازگشت سن سکتے ہیں۔ اس بات کے ساتھ تشدد اور خونریزی کا خطرہ جڑا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ میں اس خطرے کی نشاندہی نہیں کرسکتی‘‘۔
بھارت کی ایک ارب تیس کروڑ آبادی میں بیس کروڑ مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ تعصب اور نفرت کی آگ ہے جس نے ہر طرف سے مسلمانوں کو گھیرا ہوا ہے۔ مسلمان جس میں جل رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون سے لے کر متنازع شہریتی ایکٹ تک امتیازی سلوک کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔ اس متعصبانہ رویے میں کورونا وائرس کی وبانے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بھارت میں یہ فضا بنا دی گئی ہے کہ کورونا صرف مسلمانوں کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ جب سے بھارت میں کورونا کا سلسلہ شروع ہوا تبلیغی جماعت کے اجتماع کو بہانہ بناکر بھارتی میڈیا نے پوری مسلم کمیونٹی کو سولی پر چڑھایا ہوا ہے۔ ہندو قوم پرست سیاستدان اور ان کے انتہا پسند حامی مسلم مخالف جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ مختلف چینلز ایسا ماحول بنارہے ہیں کہ مسلمانوں کا اس وائرس کو پھیلانے کا مقصد ہندوئوں کو مارنا ہے۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع سے مراد آباد میں ڈاکٹر پر تشدد تک مسلمان مخالف زہر گھولا جار ہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مسلمان مخالف پوسٹیں اس آگ کو اس شدت سے بھڑکا رہی ہیں کہ لگتا ہے بھارت کے مسلمانوں کو جلد ہی ایک اور خونریزی کا سامنا ہوگا۔ بھارتی مسلمان شدید خوف وہراس کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ مسلم نفرت کا یہ عالم ہے کہ گجرات کے اسپتال میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کو مسلمان اور ہندو کی بنیاد پر وارڈز میں علیحدہ علیحدہ منتقل کیا جارہا ہے۔ ایک مسلمان حاملہ خاتوں پر کورونا کے شبہ میں اتنا تشددکیا گیا کہ اس کا حمل ضائع ہوگیا۔
بھارت چند ہی ماہ میں ایک بار پھر مسلم نسل کشی کی طرف جارہا ہے۔ ہر طرف مسلمانوں کو کورونا کے پھیلائو کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے۔ کورونا کی آڑ میں مسلمان طلبہ کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ جب سے نریندر مودی بھارت میں طاقت میں آئے ہیں گجرات کے فسادات سے لے کر کورونا وبا تک مسلمانوں کو مارا جارہا ہے، ان کا قتل عام کیا جارہا ہے، ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ انہیں جلایا جارہا ہے۔ خواتین کو بے آبرو کیا جارہا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو گھیر گھیر کر مارا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی مارکیٹیں، بازار اور دکانیں چن چن کر جلائی جارہی ہیں لوٹی جارہی ہیں۔ ان پر تشدد کیا گیا، شہریت ایکٹ کی آڑ میں حراستی مراکز قائم کیے جارہے ہیں۔ کورونا کا مسلمانوں سے تعلق جوڑنے کا یہ عالم ہے کہ دہلی میں ایک رکن اسمبلی کے گھر مزدور کو کام کے دوران چھینک آگئی تو ان کی اہلیہ کہنے لگی کہ اسے کورونا وائرس تو نہیں، تو مزدور فوراً بولا ’’میں ہندو ہوں‘‘۔ مزدور کا جواب اس ذہنیت کا اظہار ہے جس میں مسلمانوں کو وائرس پھیلانے کا واحد ذمے دار سمجھا جارہا ہے۔ امریکا کے معتبر اخبار نے بھی لکھا کہ بھارتی وزارت صحت نے بار بار ایک اسلامی مدرسے پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا اور حکومتی عہدیداروں نے ’’انسانی بم‘‘ اور ’’کورونا جہاد‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جس کے بعد بھارت بھر میں مسلم مخالف حملے شروع ہوگئے۔
بھارت میں مسلمان جو پہلے ہی غربت، بھوک اور بے روزگاری کا شکار ہیں لاک ڈائون کے بعد مزید قابل رحم حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ دیگر کمیونٹیز تو مسلمانوں کی مدد کو نہیں آتیں۔ خود مسلمانوںکے لیے بھی مسلمانوں کی مدد مشکل بنادی گئی ہے۔ ایک جگہ جہاں نوجوان مسلمان غریبوں کو کھانا کھلا رہے تھے ان پر کرکٹ بلوں سے حملہ کیا گیا۔ دوسرے مسلمانوں کو مارا پیٹا اور گھسیٹا گیا، ان کے علاقوںسے بے دخل کیا گیا، مساجد پر حملے کیے گئے اور انہیں وائرس پھیلانے والا کہا گیا۔ پنجاب میں، سکھوں کے گوردواروں میں لائوڈ اسپیکروں سے اعلان کیے گئے کہ وہ مسلم ڈیری فارمرز سے دودھ نہ خریدیں کیونکہ وہ کورونا وائرس سے متاثرہ ہے۔ اتر پردیش میں آر ایس ایس کے غنڈے مسلمان سبزی فروشوں سے سبزی نہیں خریدنے دے رہے کہ یہ کورونا سے آلودہ ہے۔ آن لائن نفرت انگیز پیغامات اور جعلی ویڈیوز کی بھرمار ہے جن میں مسلمان یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ماسک نہ پہنیں، معاشرتی دوری پر عمل نہ کریں، وائرس سے بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔ سب کو معلوم ہیں یہ ویڈیوز جعلی ہیں لیکن نہ بھارتی حکومت اور نہ یوٹیوب انتظامیہ کوئی ایکشن لینے اور ان ویڈیوز کو ہٹانے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر ہی نہیں پورے ہندوستان کو مسلمانوں کا سلاٹر ہائوس بنادیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب بھارتی مسلمان کہاں جائے۔ ہندوستان میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ حکومت سازی کے لیے مسلمانوں کی حمایت ضروری ہے۔ مودی نے اس خیال کو عملی طور پر غلط ثابت کردیا ہے اور پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے تعاون کے بغیر بلکہ ان سے نفرت کی بنیاد پر حکومت بناکر دکھا دی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اب بھارتی جمہوریت میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیںہے۔ کوئی مستقبل نہیں ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ کوئی بڑی سیاسی جماعت ہے اور نہ مسلمانوں کے پاس طاقتور موثر قیادت ہے۔ متنازع شہریت ایکٹ کے خلاف مسلمانوں نے اپنی طاقت کا کچھ مظاہرہ کیا تھا لیکن دہلی کے قتل عام کے بعد مسلمان ایک بار پھر شدید خوف کا شکار ہیں۔ ریاست بلوائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ آٹھ ماہ سے زائد ہونے کو آرہے ہیں کشمیر کے مسلمان بدترین قید میں ہیں۔ شہریت کے نئے قانون، دہلی کے مسلم کش فسادات اور اب کورونا کی آڑ میں مسلمانوں پر ظلم وستم ثابت کرتا ہے کہ مو جودہ ریاستی انتظام اور جمہوری سیٹ اپ میں مسلمانوں کے مسائل کا کوئی حل نہیں۔
جہاں تک پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کا تعلق ہے مودی ہندوستان کو مسلمانوں کا مقتل بنادے، پاکستان یا کسی بھی مسلم ملک کے حکمران نے کچھ کرنا تو درکنار آواز بھی بلند نہیں کرنی ہے۔ وطنیت کی دیمک نے عام مسلمانوں کے ایمان کو بھی اس قدر کھو کھلا کردیا ہے کہ اب پاکستان میں بھی مسلمانوں پر ظلم پر وہ احتجاج نظر نہیں آتا جب دنیا میں کہیں کوئی مسلم کش واقعہ ہوتا تھا پاکستان کے مسلمان سڑکوں پر نکل آتے تھے۔ اب مسلمان صرف نماز روزوں کی فکر تک محدود ہوکررہ گئے ہیں۔ کیا وقت پر ادا کیے گئے نماز روزے خون مسلم پر خاموشی کا مداوا کر پائیں گے۔ جب پوری دنیا میں مسلمانوں کی خلافت کی صورت میں ایک متحدہ اور طاقتور حکومت تھی کسی کو جرأت نہیں تھی کہ مسلمانوں کو میلی نظر سے دیکھ لے اور اگر کہیں کوئی ایسا کرتا تھا تو اسے عبرت انگیز قیمت چکانا پڑتی تھی۔ آج بھی مظلوم مسلمانوں کے داد رسی وحی کی بنیاد پر قائم ایک مضبوط ریاست خلافت ہی کرسکتی ہے۔ مسلمانوں پر ظلم کرنے والے سن لیں موجودہ صدی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی صدی ہے۔