احساس پروگرام کی شفافیت

570

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ اور احساس پروگرام کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا ہے کہ احساس پروگرام سے مزید 12 ہزار لوگ نکال دیے گئے۔ اس سے پہلے دسمبر میں 8 لاکھ 20 ہزار لوگ کٹیگری ون سے نکالے گئے تھے۔ یہ لوگ کیوں نکالے گئے، اس کی وضاحت موجود نہیں۔ غالباً یہ لوگ اس پروگرام کے تحت امداد کے مستحق نہیں تھے کیونکہ ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ کیش پروگرام میں شفافیت بہت اہم ہے اور یہ پروگرام بالکل غیر سیاسی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کا دعویٰ درست ہو لیکن جن کو امداد دی جاتی ہے ان کو یہ ضرور بتایا جاتا ہے کہ یہ رقم عمران خان کی طرف سے ہے۔ کیا عمران خان اپنی جیب سے رقم دے رہے ہیں یا یہ امداد ریاست کی طرف سے ہے؟ سندھ میں یہ لطیفہ ہو چکا ہے کہ جب گورنر صاحب نے استفسار کیا تو جواب یہ ملا کہ انہیں یہ رقم بے نظیر کی طرف سے ملی ہے اور گورنر صاحب کو کہنا پڑا کہ رقم عمران خان کی طرف سے ہے۔ کیا یہ سیاست نہیں؟ کیوں نہ کہا کہ امدادی رقم ریاست کی طرف سے دی جا رہی ہے۔ احساس پروگرام میں شاید شفافیت ہو لیکن اس میں سیاست شامل ہے ورنہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام تو پہلے سے جاری تھا، اسی کو آگے بڑھایا جاتا۔ مگر وہاں عمران خان کا نہیں، بے نظیر کا نام آرہا ہے۔ احساس پروگرام ہو یا عمران خان کی ٹائیگر فورس، یہ پہلے ہی دن سے متنازع ہیں کہ ان میں خلوص کی جگہ سیاسی چالبازی شامل ہے۔ احساس پروگرام کے بارے میں ثانیہ نشتر نے بتایا کہ اب تک 144 ارب روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں، شفافیت کے لحاظ سے یہ ایک تاریخی پروگرام ہے۔ تاہم یہ شکوہ بھی عام ہے کہ ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دی جا رہی ہیں۔ ہم نے جس بھی ضرورت مند سے پوچھا اس کا یہی جواب تھا کہ کچھ نہیں ملا۔ پھر یہ بھاری رقم کہاں جا رہی ہے۔ ضرورت مندوں کی شناخت کے لیے شاید درست اور شفاف طریقہ استعمال نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے کئی تجاویز سامنے آچکی ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوا۔ ایک تجویز تو یہ تھی کہ بلدیاتی اداروں کے ارکان کے ذریعہ امداد تقسیم کی جائے۔ ارکان اسمبلی سو فیصد سیاسی ہوتے ہیں، ان کو دور رکھا جائے۔ ان کے بارے میں کئی شکایات سامنے آچکی ہیں۔ اگر ان کے ذریعے امداد تقسیم ہوئی تو وہ اپنے ووٹ پکے کریں گے۔ زکوٰۃ کمیٹیاںبھی معاون ہو سکتی ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ یہ کام بھی فوج سے لیا جائے۔ زلزلے کے بعد عوام نے جی کھول کر متاثرین کی امداد کی تھی۔ اس کی تقسیم اور صحیح جگہ پہنچانے کا کام فوج نے بخوبی سر انجام دیا تھا۔ پاکستان میں کئی معتبر فلاحی اور رفاہی تنظیمیں موجود ہیں جو ملک گیر سطح پر اپنے اپنے طور پر ضرورت مندوں کی مدد فی سبیل اللہ کر رہی ہیں۔ کسی قسم کی ٹائیگر فورس بنانے کے بجائے ان کا تعاون حاصل کیا جاتا۔ احساس پروگرام سے لوگ نکالے جا رہے ہیں، غالباً وہ ضرورت مند نہ ہوں گے۔ اس سے پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نقد رقوم لینے والے ایسے متعدد افراد پکڑے گئے جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تھے لیکن یہ مفت کی رقم چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ حکومت کی طرف سے راشن کی تقسیم میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ کچھ لوگ تو رکشا میں سامان بھر بھر کر لے جا رہے ہیں، گھر میں ذخیرہ کر لیا ہے اور اصل مستحق محروم رہ جاتے ہیں۔ کہیں احساس پروگرام میں بھی یہی کچھ نہ ہو۔