سرینگر سے غازی سہیل خان صاحب نے چند ماہ قبل ترجمان القرآن کے اگست کے شمارے میں ایک مضمون لکھا کہ بھارتی مسلمان، ہجومی تشدد کی زد میں۔ ان کے مضمون میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ بھارتی مسلمان سیکولرازم کی آڑ میں تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں ان کو نشانہ بنانے والے آر ایس ایس ، بی جے پی اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے کارکن اور اب میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار عام ہندو بھی ہے۔ غازی سہیل نے ایک اصطلاح استعمال کی ہے کہ ہجومی قتل۔ قتل سے پہلے ایک ماحول بنایا جاتا ہے کہ مارنے سے پہلے بُرا نام دو۔ یہ سب تو بھارت میں ہورہا ہے، کشمیر میں آتنگ وادی کے نام پر، بھارت میں گائے ذبح کرنے یا گوشت کھانے کے نام پر، کہیں مندر کے نام پر، کہیں مندر کی جگہ مسجد بنانے کے نام پر ہورہا ہے اور کرنے والے بھی ہندو ہیں لیکن عیدالاضحی کے بعد کراچی میں ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ایک ہجوم نے چوری کے الزام میں ایک نو عمر لڑکے کو مار مار کر قتل کردیا۔ اس کی مختلف ویڈیوز سامنے آگئیں اور معاملہ دب گیا۔ چلیں پڑھے لکھے مہذب ملکوں کی طرف چلتے ہیں۔ امریکا میں حجاب مسلمان ڈاڑھی، حتیٰ کہ اسلامی نام والوں کے خلاف نفرت ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے بُرا نام دیا جارہا ہے۔ انتہا پسند، دہشت گرد جنونی وغیرہ۔ یہ سب مسلمانوں کو کہا جاتا ہے۔ آج کل ایک بار پھر وہی رویہ سامنے آرہا ہے۔ بھارتی مسلمانوں پر اسپتال کے دروازے بند کردیے گئے۔ برطانیہ کا سوشل میڈیا مسلمانوں کے خلاف مہم چلارہا ہے لیکن پاکستان میں ایسا رویہ سرکار اور دین بیزار لوگوں نے اپنا رکھا ہے جو نہایت تکلیف دہ اور غیر اسلامی ہے۔
پاکستان میں اس حوالے سے سب سے زیادہ چلتے پھرتے دکھانے والا پاکستانی میڈیا ہے جس کو باقاعدہ ایجنڈا دیا گیا ہے کہ دین بیزاری پیدا کرو، اس کا اظہار کرو اور لوگوں کو دین سے برگشتہ کرو۔ چناں چہ کورونا کی وبا کے ساتھ ہی مساجد کو اور تبلیغی جماعت کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ وزیراعظم بھی دھمکیاں دینے پر اُتر آئے۔ اور اگر کورونا پھیلا تو مساجد بند کردوں گا۔ وزیراعلیٰ سندھ سمیت کوئی بھی یہ بتادے کہ اب تک جتنا کورونا پھیلا ہے کیا وہ مساجد سے پھیلا ہے یا تبلیغ سے؟ ایسا تو ہرگز نہیں ہے بلکہ بیرون ملک سے آنے والوں میں کورونا کی تشخص ہوئی تھی اور اب بھی 95 فی صد کیسز بیرون ملک سے آنے والوں ہی کے ہیں۔ مقامی منتقلی کے کیسز تو کم ہیں، لیکن حکومت سندھ اور وفاق کے وزیر صحت کا اصرار ہے کہ یہ سارے کیسز مقامی طور پر پھیل رہے ہیں۔ ایک عجیب رویہ حکمرانوں اور میڈیا کا ہے، کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ایجنڈے کے تحت کام کررہے ہیں، میڈیا بُرا نام دیتا ہے، حکمران کارروائی کر ڈالتے ہیں۔ ایک ماہ قبل علما اور حکومت سندھ کے مابین اجلاس میں طے پایا کہ مساجد میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ نمازیں ادا کی جائیں گی۔ لیکن اچانک صوبائی حکومت نے مساجد بند کرنے کا اعلان کردیا اور جمعے کو لاک ڈائون سخت کرنے کا فیصلہ نافذ کیا۔ ایک بار پھر مرکزی حکومت اور علمائے کرام کے اجلاس کے بعد احتیاطی تدابیر کے ساتھ نمازوں اور تراویح کے بارے میں فیصلہ ہوا اور اگلے ہفتے وزیراعظم نے دھمکی دے دی کہ مساجد سے کورونا وائرس پھیلا تو مساجد کو بند کردوں گا۔ اسی روز وزیراعلیٰ سندھ کی خبر میں تبلیغی جماعت والوں کے خلاف جملہ لکھ کر خبر شروع کی گئی حالاں کہ خبر نیشنل ڈیٹا بیس قائم کرنے کی تھی۔ اب روزانہ تبلیغی جماعت کا نام لیا جارہا ہے۔ کسی اور کا نہیں لیا جاتا۔ یعنی مذہبی منافرت کا کھلم کھلا اظہار سرکاری طور پر کیا جارہا ہے۔
اس ساری صورت حال میں پاکستانی عوام سخت اذیت کا شکار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورونا کا مریض دہشت گرد یا مجرم ہے۔ میڈیا اور حکومتوں کے رویے سے بھی یہی لگتا ہے کہ جو بھی کورونا کا مریض ہے وہ ملک دشمن ہے۔ علما سے مشاورت کے بعد صدر مملکت نے 20 نکات کا اعلان کیا تھا لیکن اسے بھی چار روز کے بعد ہی متنازع بنادیا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مساجد میں نماز کا فیصلہ تادم تحریر برقرار ہے۔ نمازیوں کے درمیان تین فٹ کا فاصلہ رہے گا، نمازی ماسک پہن کر وضو کرکے آئیں گے، سینی ٹائزر استعمال کریں گے، بوڑھے اور بیمار نہیں آئیں گے، صفوں کے درمیان خلا کے بارے میں علما نے ہمیشہ یہی بتایا ہے کہ اگر خلا رہ جائے تو شیطان آجاتا ہے۔ اللہ رحم کرے۔ اب شیطان کو قدم جمانے کا موقع تو مل گیا ہے اس کے حملوں میں اضافہ ہی ہوگا۔ اور جو لوگ عموماً نمازوں کی صفوں میں ہی نہ ہوتے ہوں ان کا کیا عالم ہوگا۔ حکمران نماز اور تبلیغ کو کورونا پھیلانے کا سبب قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ جتنا بھی کورونا اب تک پاکستان میں پھیلا ہے وہ کون سی مسجد سے پھیلا۔