مریض کو مجرم بنانے کی تیاری

325

حکومت سندھ نے نادر شاہی حکم جاری کردیا ہے کہ کورونا پھیلانے پر دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے آرڈیننس بھی لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو گیا اور اسے اس کا علم ہی نہیں کہ وہ وائرس کا شکار ہے تو حکومت بیمار کو دس لاکھ کا جرمانہ کر دے گی۔ کیونکہ اس کو پتا نہیں تھا کہ وہ وائرس کا شکار ہے اور جب تک پتا نہیں چلا اس وقت تک وہ لوگوں سے ملتا رہا۔ گویا وہ وائرس پھیلانے کا مجرم ہے۔ لہٰذا دس لاکھ روپے جرمانہ۔ اب تک جس انداز میں کورونا کے مریض قرار دینے کا سلسلہ جاری ہے اس حساب سے دس لاکھ روپے جرمانے کی خاطر سڑکوں پر لوگوں کو پکڑ پکڑ کر مریض اور کورونا پھیلانے کا مجرم قرار دے دیا جائے گا۔ دُنیا بھر میں مریض سے ہمدردی کا درس دیا جاتا ہے خواہ وہ ایڈز کا مریض ہو یا کسی بھی مرض کا شکار۔ یہاں تک کہ مجرموں سے بھی ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں کا رویہ یہ ہے کہ ٹیکس دینے والے کو ٹیکس چور کہتے ہیں۔ خود ذخیرہ اندازوں کی مافیا کے بل پر حکومت کرتے ہیں لیکن مافیاز سے لڑائی کا اعلان کرتے ہیں۔ جب سے کورونا پھیلا ہے اس کو پھیلانے والوں سے تو حکومت نے کوئی جرمانہ وصول نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ کے بہنوئی وی آئی پی سہولیات استعمال کرتے ہوئے اسکیننگ کے بغیر گھر پہنچ گئے۔ کیا ان کے گھر والوں پر دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ سندھ کے وزیر سعید غنی کے ٹیسٹ دو مرتبہ مثبت ہوئے تو کیا وہ بھی جرمانہ دیں گے پتا نہیں کس کس کو وائرس لگایا تھا۔ روزانہ وزرا اور حکمرانوں کی تصاویر شائع ہو رہی ہیں جس میں وہ ماسک جیسی بنیادی احتیاط نہیں کرتے۔ تصویر جو شائع کرانی ہوتی ہے وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیراعلیٰ پنجاب، ان کی مشیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوتی ہیں ان کی جانب سے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جارہی کیوں نہ انہیں کورونا پھیلانے کا مجرم قرار دے کر دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے۔ مریضوں کو مجرم بنانے کا رویہ ترک کیا جانا چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ اس بیماری کو بھی مال بنانے کا موقع بنا چکے۔ حکومت سندھ کے وزرا اور اعلیٰ افسران پر پیسے لے کر دکانیں اور صنعتیں کھولنے کا الزام تو اب پرانا ہو گیا۔ ایسے لوگوں کا کیا اعتبار اور جب مجوزہ آرڈیننس قانون بن جائے گا تو گلی گلی میں مریضوں کو مجرم بنایا جائے گا۔ مشکل یہ ہے کہ اس رویے کی اصلاح کہاں سے کرائی جائے۔ اس معاملے میں تو سب ایک پیج پر ہیں۔ عدلیہ سے بھی اس معاملے میں انصاف ملنے کی توقع نہیں۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں لیکن کورونا کے مریض کو دونوں مجرم ہی گرانتے ہیں۔ اب تو لوگ صرف دعا کر سکتے ہیں کہ کورونا وائرس اور عوام کو لوٹنے والے وائرسوں سے نجات ملے۔ یہ بحث بھی عام ہے کہ کورونا بیماری زیادہ خطرناک ہے یا بھوک۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ زیادہ خطرناک بیماری یا بھوک نہیں بلکہ عوام کے دشمن حکمران ہوتے ہیں۔ اگر حکمران ہی ہروقت عوام کو لوٹنے ان کو پریشان کرنے اور ان سے پیسے اینٹھنے کے ہتھکنڈے تلاش کرتے رہیں تو پھر بیماریاں کیا نقصان پہنچائیں گی۔