مقدر کا سکندر

315

ہم نے کچھ عرصہ قبل انہی کالموں میں وزیر اعظم عمران خان کو مقدر کا سکندر کہا تھا اور اب پوری قوم عمران خان کو مقدر کا سکندر کہہ رہی ہے جو سیاسی مبصرین یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکتی اور حکومت کرنا عمران خان کے بس کا روگ نہیں۔ عمران خان ایسے مبصرین کے لیے سب سے بڑا روگ بن چکے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کسی عظمیٰ بی بی کے کاندھوں پر رکھی ہوئی ہے اور وہ کاندھے اتنے مضبوط نہیں جو پانچ سال تک اس بوجھ کو برداشت کر سکیں ہم نے انہی دنوں کہا تھا کہ ایسا سوچنے والے ملکی سیاست اور قوم کی فطرت سے واقف نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی زر داری اور میاں نواز شریف کی حکومت کی طرح پانچ سال پورے کرے گی البتہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو جائیں گے مگر اب اس کی کمک کے لیے کورونا وائرس کی فو ج آچکی ہے جس کے خوف سے قوم نے گھروں میں مورچہ بنا لیا ہے یہ ایک ایسا مضبوط مورچہ ہے کہ اس پر حملہ آور ہونے کے لیے کورونا وائرس سوچ بھی نہیں سکتا۔
چینی، آٹا اور دیگر اشیائے ضروریات، بے روزگاری اور مہنگائی کا سونامی عوام اور سیاست دانوں کی سوچ کو بہالے گیا ہے اور پوری قوم کورونا وائرس کے خوف میں مبتلا ہے۔ حکومت کرنے والے کورونا وائرس کے گڑھے میں گر گئے ہیں وزیر اعظم عمران خان مقدر کے سکندر ہیں۔ جب تک کورونا وائرس متحد اور فعال رہے گا کوئی بھی وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں نہیں سوچے گا کیوںکہ کورونا کا وائرس سب سے پہلے دماغ کو متاثر کرتا ہے اور پھر جسم پر حملہ آور ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ کچھ حیا ہوتی ہے کچھ شرم ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ نہیں ہوتا بس کچھ کچھ ہوتا ہے اور یہ کچھ کچھ بہت کچھ ہوتا ہے۔ پہلے قوم سیاست دانوں اور ان کے حواریوں کے بارے میں سوچتی تھی کہ انہیں شرم کیوں نہیں آتی۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب آنکھ سے شرم نکل جائے تو حیا بھی چپ شاہ کا روزہ رکھ لیتی ہے۔ ٹی وی چینل پر حکومتی ترجمان بڑی بے حیائی اور بے شرمی سے حکومت کی حمایت اس ڈھٹائی سے کرتے ہیں کہ ڈھیٹ پن کی ساری حدیں مٹ جاتی ہیں۔ کورونا وائرس کی آڑ میں سرکاری ڈاکٹروں نے خود کو اپنے کمروں میں بند کر لیا ہے شاید ان کی نظر میں کورونا وائرس جذام سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ اسپتال جائیں تو چپڑاسی کی چپڑچپڑ ان کا بلڈ پریشر ہائی کر دیتی ہے اور مریض برین ہیمریج سے بچنے کے لیے اپنی تکلیف چپڑاسی کو بتاتا ہے جو مریض کو دوا دیتا ہے جس کے پاس ڈاکٹر صاحبان کی پرچی ہوتی ہے اس کے مطابق ادویات فراہم کر دیتا ہے مگر پرچی واپس نہیں کرتا اور کوئی حکومتی ترجمان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔