محمد سمیع گوہر
پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں اور ہلاکتوں میں تشویشناک اضافہ کی بنا پر وزیر اعظم عمران خان کا بیانیہ اب کافی تبدیل ہوگیا ہے اور وہ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے کرپشن کے ذریعے لوٹی جانے والی دولت واپس لینے، ان کو جیلوں میں ڈالنے اور ان کو عبرت کا نشانہ بنا دینے پر روز آنہ بیان بازی کے بجائے کورونا وائرس سے بچائو کے لیے ملک میں مکمل لاک ڈاون کی مخالفت، اسمارٹ لاک ڈاون کی حمایت اور محنت کش طبقے کو بھوک سے بچانے اور ان کی مالی اعانت پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ اب انہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لندن سے واپسی اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی یاد بھی زیادہ نہیں ستا رہی ہے اور یہی حال ان کے مشیران اطلاعات کا بھی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اس وقت کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ زور شور کے ساتھ مہم چلانے کا کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کو دیا جاتا ہے، ان کو ملک کا سب سے زیادہ ایماندار سیاستدان قرار دیا جارہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا ہے جب کہ ماضی میں ان کے خلاف قائم کیے جانے والے مقدمات پر کوئی کاروائی ہی نہیں کی جارہی ہے۔ عمران خان کے حامیوں کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ پاکستان کے سابق وزراء اعظم جن میں شہید ملت لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، ملک معراج خالد اور محمد خان جونیجو پر بھی لگایا جانے والا کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا تھا اور عمران خان اس بات کا کریڈٹ لینے والے کوئی پہلے وزیر اعظم نہیں ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ تندہی کے ساتھ کام کرنے کا پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا دعویٰ حقائق کے برخلاف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ملک میں کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ آواز بلند کرنے کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو جاتا ہے، اس کے رہنمائوں نے سچ بولنے اور حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں انتقامی کاروائیوں کا سامنا بڑی پامردی سے کیا کسی اور جماعت کے کارکنوں اور رہنمائوں نے اتنے جانی و مالی نقصانات برداشت نہیں کیے اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت نہیں کی ہیں جتنی جماعت سے وابستہ افراد نے کی ہیں اور اس پر ان کی خدمات کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ اس کی سب سے بڑی اور ماضی قریب کی یہ مشال سب کے سامنے ہے۔ 2013 سے 2018 کے دوران خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت تھی۔ اس حکومت کے ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے مختلف وزیروں کے خلاف بد عنوانیوں کے مقدمات قائم ہوچکے ہیں جن میں سابق وزیر اعلیٰ پروز خٹک بھی شامل ہیں لیکن جماعت اسلامی کے کسی وزیر کے خلاف کوئی ایک مقدمہ نہ تو قائم ہو اور نہ ہی زیر غور ہے۔ راقم الحروف نے 1970 سے بحیثیت ایک سیاسی ورکر اور صحافی کے ملک کی سیاسی سرگرمیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے دو سابق مئیر نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی مرحوم کی ایمانداری اور انتظامی صلاحیتوں کا آج پورا ملک معترف ہے۔ صحافت کے شعبہ میں روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین مرحوم نے سچ کہنے اور سچ لکھنے کے جرم میں جتنی جیلیں کاٹیں اور قربانیاں دیں وہ ہماری قومی صحافت کا ایک روشن باب ہے۔
اب آئیں ہم یہ دیکھیں کہ کیا وزیر اعظم عمران خان کا دامن کرپشن کی سیاست سے واقعی بالکل صاف ہے۔ ان کے اقتدار کے دوران کی سرگرمیوں پر نظر ڈالنے سے پہلے ان کی اقتدار میں آنے سے قبل کے حالات و واقعات کو دیکھنا ہوگا۔
٭ 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کے قیام کے وقت عمران خان پارٹی کے چیئرمین اور بائیں بازو کے ممتاز ترقی پسند رہنما معراج محمد پارٹی کے رہنما منتخب ہوئے۔ معراج محمد خان اپنے نظریات سے مخلص، پرجوش اور ایماندار سیاسی کارکن تھے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر ہونے کے باوجود ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا کچھ ہی عرصہ بعد معراج محمد خان عمران خان ان کی سیاسی سمجھ بوجھ سے مایوس ہوکر پارٹی چھوڑ گئے۔
٭ پاکستان کی عدلیہ کے ایک انتہائی معزز جسٹس وجیہ الدین نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، ملک میں ہونے والے گزشتہ عام انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انتخابات میں پارٹی الیکشن کرائے گئے تھے جس کے بعد پارٹی کے ورکروں نے کامیاب ہونے والے امیدواروں پر دھاندلی کے الزامات لگائے، پارٹی چیئرمین عمران نے اس پر ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی جس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پارٹی رہنمائوں جہانگیر ترین اور علیم الدین خان نے پیسہ کی طاقت کے بل پر انتہائی دھاندلی کرتے ہوئے الیکشن جیتے ہیں اور ان کو پارٹی سے نکالا جائے۔ مگر عمران خان نے تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین کو نکال دیا۔
٭ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے وزراء کے خلاف انکوائری شروع کرنے پر صوبائی محتسب کا دفتر بند کردیا گیا۔
٭پی ٹی آئی کے ایک بانی رکن غلام اکبر نے پانچ سال قبل الیکشن کمیشن میں درخواست دی تھی کہ بیرون ملک سے اکٹھے کیے جانے والے فنڈز کے تیرہ بینک اکائونٹس عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سامنے ڈیکلیئر نہیں کیے ہیں۔ عمران خان بجائے اس الزام کو جھوٹا ثابت کرتے وہ پانچ سال سے اس مقدمہ کو چلنے ہی نہیں دے رہے ہیں۔
٭ عمران خان نے بنی گالہ، اسلام آباد میں اپنے گھر کی تعمیر کا ایک جعلی نقشہ ایک زیرسماعت مقدمہ کے دوران عدالت عظمیٰ میں جمع کرایا تھا، بعد میں وہاں کی ڈیویلپمٹ ایجنسی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ہم نے تو بنی گالہ میں تعمیر ہونے والے کسی بھی گھر کی تکمیل کا نقشہ منظور ہی نہیں کیا ہے۔ مگر عمران خان اب بھی صادق اور امین۔
٭ عمران خان نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر وزیر اعظم پاکستان کا سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا الزام لگایا تو جواب میں ان پر بھی خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا سرکاری ہیلی کاپٹر سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگا جس کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کون سچا ہے۔
٭ عمران خان نے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف پر ایک شخص کے ذریعے دس کروڑ روپے رشوت دینے کا الزم لگایا جس پر شہباز شریف نے جھوٹا الزام لگانے پر عدالت میں مقدمہ دائر کردیا تھا اس کیس میں عمران خان مفرور ہیں اور عدالت میں پیش نہیں ہوتے ہیں۔
٭خیبر پختون خوا کی سابقہ صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں پشاور موٹر وے یعنی بی آر ٹی پروجیکٹ اور مالم جبہ میں جنگلات کی لیز کے کیسز میں اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات پر مقدمات قائم ہیں لیکن عمران خان کو اپنے وزیروں کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی جانچ کرانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ان کی ساری توجہ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف قائم کیے جانے والے مقدمات پر رہتی ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی بعد ملک سے کرپشن کے خاتمہ کی سنجیدگی کا معیار کیا تھا۔ کہتے ہیں جب کسی کام کا آغاز ہی اچھا نہ ہو تو پھر انجام اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم بنے کے لیے ان سیاسی رہنمائوں کو جنہیں ملکی سیاست میں جیتنے والے گھوڑے کہا جاتا ہے (اور لوٹے بھی) ایک بڑی تعداد میں اپنی پارٹی میں شامل کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو پرویز مشرف سے لے کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتوں کا حصہ تھے اور سیاست میں پیسہ خرچ کرکے کس طرح مع سود وصول کیا جاتا ہے کے ماہر تھے۔ پھر جب عام انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے مزید دس سے پندرہ آزاد اراکین کی شرکت کا مسئلہ درپیش ہوا تو جہانگیر ترین جو عمران خان کی اے ٹی ایم مشین سمجھے جاتے ہیں ان کا طیارہ اراکین کی خرید و فروخت کے لیے آزادانہ طور پر استعمال ہوا اور پوری قوم نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا۔ عمران خان جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو ملک کی سب سے بڑی کرپٹ جماعتیں سمجھتے ہیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کی کابینہ کے وزیروں اور مشیروں میں چالیس فی صد سے زیادہ لوگ وہ ہیں جو ماضی میں ان دونوں پارٹیوں کی حکومتوں کا حصہ رہے تھے۔
عمران خان کی حکومت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ملک میں آٹے اور چینی کی قلت کا شدید بحران ہوا اور ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ عوامی احتجاج پر حکومت کو تحقیقاتی کمیٹی بنانی پڑی اور جب دوران تفتیش یہ بات لیک ہوگئی کہ اس لوٹ مار میں ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار بھی ملوث ہیں تو عمران خان نے رپورٹ منظر عام پر آنے سے قبل ہی ان دونوں ساتھیوں کو بارے میں بیان دیا کہ یہ دونوں اس گھنائونے کام میں ملوث نہیں ہیں اور جب رپورٹ سامنے آئی تو عمران خان کی جانبداری کا بھانڈا پھوٹ گیا اور معاملہ فرانزک آڈٹ رپورٹ کے آنے تک ٹل گیا۔ ملک میں کام کرنے والے نجی شعبہ کے بجلی گھروں کی لوٹ مار اور ان کو ادا کیے جانے والے اربوں روپے مالیت کے سرکلر ڈیٹ کے سلسلے میں قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی تو اس میں بھی حکومت میں شامل مشیر تجارت صدیق دائود اور مشیر توانائی ندیم بابر کی بجلی کمپنیاں ناجائز منافع کمانے میں سر فہرست نظر آئیں۔
ان حالات میں اب جبکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں جن میں آصف زرداری، خورشید شاہ، مراد علی شاہ، فریال تالپور، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شریف، سعد رفیق، سلمان رفیق، ایس ایم احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی پر کرپشن، بدعنوانیوں اور منی لانڈرنگ کے متعدد مقدمات قائم کیے جاچکے ہیں تو دوسری جانب خود پی ٹی آئی کی حکومت کے وزیروں اور مشیروں جن میں پرویز خٹک، شوکت یوسفزئی، علیم خان، اعظم سواتی، غلام سرور، فردوس عاشق اعوان، خسرو بختیار، زلفی بخاری اور جہانگیر ترین شامل ہیں اور ان پر بھی قومی خزانے کو لوٹ کر اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے معالات زیر تفتیش ہیں تو کیا یہ سوال نہیں پیدا ہوگا کہ کیا ملک میں اب ایک شفاف احتساب ہوسکے گا۔ اس وقت عمران خان کی حکومت ایک ایسے بینک کی مانند ہے جس کو چلانے کے لیے دیانتدار افراد کے ساتھ ساتھ چوریوں اور ڈکیتیوں میں ملوث لوگ عملہ میں شامل کیے گئے ہیں کیا بینک محفوظ رہے گا؟ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں میں سے کس نے سب سے زیادہ قومی دولت کو لوٹا ہے اس کا فیصلہ تو عدالتوں ہی کو کرنا ہوگا، عمران خان اب منصف نہیں رہے کیونکہ ان کی صفوں میں بھی کرپٹ اور بدعنوان لوگ شامل ہیں۔ دوسری جانب قومی احتساب بیورو کا کردار بھی مشکوک ہو چکا ہے، ایف آئی اے بھی حکومت میں شامل افراد کا دفاع کررہی ہے۔ صحیح معنوں میں ملک میں غیر جانبدارانہ احتساب اسی وقت ہوسکے گا جب سب جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہ کرنے کی بنا پر عدالتیں انہیں ضمانت پر رہا کرچکی ہیں جبکہ حکومت میں شامل وزیروں اور مشیروں کے خلاف قومی احتساب بیورو کوئی کاروائی ہی نہیں کرتا نظر آتا ہے جس سے اس ملک میں احتساب اب ایک مذاق بن چکا ہے۔ کرپشن کے خلاف کاروائی کرنے والے ادارے خود کرپٹ عناصر سے بھرے پڑے ہیں، وہ حکومت کی جانب سے اشارہ ملنے پراس کے ناپسندیدہ سیاسی افراد کے خلاف ہی کاروائی کرتے ہیں اور حکومتی اہلکار دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں۔
موجودہ حالات میں ملک میں ایک نئے احتساب کمیشن کی تشکیل کی ضرورت ہے جس کے ارکان کے تقرر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے بجائے پارلیمنٹ کے سپرد کی جائے اور اس کے ارکان کے تقرر کے لیے ہر نام پر پارلیمنٹ غور کر ے اور وہ ہی قومی احتساب کمیشن کے ٹی او آرز بھی مرتب کرے۔ اس کے بعد ہی ملک میں ایک آزادنہ اور خود مختار نظام احتساب کا عمل شروع ہوسکے گا کیونکہ احتساب کے نام پر کام کرنے والے تمام موجودہ ادارے عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔