اب اٹھارہویں ترمیم کا شوشا

400

یہ بات بالکل بجا ہے کہ جب حکمرانوں کے پاس قومی مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں بچتا اور وہ مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ ہی کرتے جاتے ہیں تو وہ نئے نئے ایشوز بلکہ نان ایشوز کو اٹھاتے ہیں تاکہ میڈیا میں طوفان اٹھایا جا سکے ۔ شاید اسی کے لیے کہا جاتا ہے کہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دیا ۔ اب وفاقی حکومت کے سابق اوپننگ بیٹسمین اسد عمر نے کہا ہے کہ18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی لائی جائے گی۔ اسد عمر کہتے ہیں کہ18ویں ترمیم میں کچھ کمی ہے دو ماہ میں تجربہ ہو گیا ہے ۔ صوبائی حکومتوں تک اختیارات پہنچ گئے لیکن مقامی حکومتوں کو نہیں ملے ۔ اسد عمر صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کی وفاقی حکومت کے پاس جو اختیارات ہیں کیا وہ انہیںاستعمال کر سکتی ہے ۔ کیا انہوں نے اپنی پارٹی کی پنجاب اور کے پی کے حکومتوں کو وہ اختیارات منتقل کر دیے ہیں جو18ویں ترمیم میں دیے گئے ہیں اور ان کی پارٹی نے اپنے ما تحت بلدیاتی اور مقامی حکومتوں کو اختیارات دے دیے ہیں ۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کے تو صوبے کے وزیر اعلیٰ وزیر اعظم کی مرضی کے بغیرکوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے تو کابینہ کے اجلاسوں میں بھی کئی ماہ تک وزیر اعظم بیٹھا کرتے تھے ۔ یہ شوشا در اصل اس لیے چھوڑا گیا ہے کہ قوم کو بحث میں اُلجھایا جائے ، ٹی وی ٹاک شو میں اس کے حق میں اور مخالفت میں خوب بحث ہوتی رہے ساری پارٹیوں کو شرکت کا موقع دیا جائے لوگ چیخ چیخ کر بحث کریں گے اور نتیجہ وہی رہے گا جو ہے ۔ وفاقی حکومت کے پیش نظر اس وقت کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے حکومت سندھ کے ساتھ ہم آہنگی کا چیلنج ہے ۔ وہ دونوں ایک پیچ پر نہیں آ رہے ۔ وفاقی حکومت اپنے وعدوں کو تو کیا پورا کرے گی ‘لاک ڈائون کے حوالے سے کوئی درست اور ٹھوس لائحہ عمل نہیں دے سکی ۔ یہ18 ویں ترمیم کی بحث تو سندھ اور وفاق دونوں حکومتوں کے لیے رحمت ثابت ہو گی ۔ دونوں حکومتیں ایسی غیر ضروری بحثیں نہ چھیڑیں ابھی تو اسمبلیوں کا اجلاس بلانا ممکن نہیں ایسے میں18ویں ترمیم کے خاتمے کی باتیں کرنا دھوکا دینے کے لیے ہی ہوسکتا ہے ۔ وفاقی حکومت کے سامنے پورے ملک کے لاک ڈائون سے متاثرہ عوام کے مسائل کے حل کا ایجنڈا ہونا چاہیے جب لاک ڈائون ختم ہوجائے تو اجلاس بلا کر کورونا کی تباہی کے نقصانات کاجائزہ لیا جائے ۔ اس کے بارے میں ہی پالیسی بنانی چاہیے ۔ جو ریلیف کے اقدامات کیے گئے ہیں اسمبلیوں سے ان کی منظوری لی جائے پھر18ویں ترمیم کے بارے میں بھی بحث کی جائے ۔ اس سے بھی پہلے حکومت اپنے وعدوں کے بارے میں غور کرے ، آئینی ترامیم کے لیے تو ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے ۔ پانچ مستعار سیٹوںوالی پارٹی اور حکومت آئینی ترمیم نہیں کر سکتی وہ اپنے اصل کام کرے۔