پارٹی ہی ریاست اور قومی مفاد بن گئی

267

پاکستان میں حکمرانوں کا یہ عمومی رویہ رہا ہے کہ وہ خود کو ملک ، ریاست ، قومی معیشت ملکی وقار وغیرہ سب کچھ سمجھتے ہیں ان پر تنقید کی جائے تو اسے ریاست کے خلاف قرار دے کر غدار کہا جاتا ہے ۔ اگر کوئی کسی ریاستی ادارے پر تنقید کرتا ہے تو وہ بھی ملک دشمن قرارپاتا ہے لیکن ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا کہ حکومتی رہنمائوں کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ آئی وہ آٹا چینی چوری میں ملوث نکلے ، پھر فارنزک رپورٹ کا انتظار کرایا گیا اسے تاخیر کا شکار کر دیا گیا۔ اب پتا چلا کہ ریاست سے بڑھ کر پارٹی ہوتی ہے جہانگیر ترین کے خلاف رپورٹ آنے پر پی ٹی آئی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔کئی پی ٹی آئی رہنمائوں نے مشورہ دیا ہے بلکہ واویلا کیا ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف انتہائی اقدام نہ کیا جائے ورنہ پارٹی تقسیم ہو جائے گی ۔ پہلے تو کہا جاتا تھا کہ ملک کو نقصان ہو گا ۔ ایسا کام ملکی سالمیت کے لیے غلط ہو گا۔ بلکہ ایسا مطالبہ کرنا ملک دشمنی ہو گا ۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جرائم کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی سے اس لیے روکا جا رہا ہے کہ اس سے پارٹی تقسیم ہو جانے کا خدشہ ہے ۔ یہ خوف عمران خان کو دلایا جا رہا ہے یا قوم کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اب پارٹی ہی ملک ، ریاست اور قومی سلامتی ہے ۔ عمران خان تو سب کے لیے ایک قانون کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے پھر کیا ہو گیا کہ ایک دو چہیتوں کو بچانے کے لیے قانون کا اس قدر مذاق بنایا جا رہا ہے ۔ پارٹی کے جن رہنمائوں نے بھی یہ مشورہ دیا ہے یا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پارٹی تقسیم ہو جائے گی وہ پارٹی کے ساتھ مخلص ہیں نہ ملک کے ساتھ ۔ یہ مشورہ دینے والوں کے سامنے صرف پارٹی اور اقتدار ہے ۔احتساب وغیرہ اور انصاف نام کی کوئی چیزیا کے سامنے نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی سے پنجاب اور مرکز میں مشکلات بڑھ جائیں گی ۔ وزیر اعظم کو خوف دلایا جا رہا ہے کہ ترین کے حامی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے مشورے دینے والے وہ لوگ ہیں جو خود مختلف پارٹیوں سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی میں آئے ہیں۔ یہ لوگ کبھی پارٹی سے مخلص نہیں رہے یہ ہمیشہ اقتدار سے مخلص رہتے ہیں چنانچہ ان کا مشورہ یہی ہونا چاہیے تھا ۔ چند ایک لوگوں کا موقف ہے کہ اگروزیر اعظم نے آٹا ،چینی مافیا کے خلاف کارروائی کر دی تو عوام میں وزیر اعظم کاقد بڑھ جائے گا ۔ لیکن ایسے لوگوں کو ہارڈ لائنر کہا جاتا ہے ۔ اب سارا بوجھ وزیر اعظم عمران خان پر ہے اگر وہ اس بوجھ کو سر سے اتارنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کا قد واقعی اونچا ہو جائے گا ۔ یہ صرف وزیر اعظم کے قد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسے پاکستان کا وقار بھی بلند ہو گا اور جس چیز کو پہلے ریاست کے لبادے میں چھپایا جاتا تھا وہ یعنی حکومت بھی مضبوط ہو گی ۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ وزیر اعظم کو ایسا مشورہ کیوں دیاجا رہا ہے ۔ اس کا مقصد جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی سے روکنا بھی ہے اور ایک اعتبار سے وزیر اعظم کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ اگر کارروائی کی تو پنجاب اورمرکز میں حکومت چلانامشکل ہو جائے گا۔ یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ جو شخص اپنے طیارے میں ڈھو کر ارکان اسمبلی کو وزیر اعظم کی خدمت میں لا سکتا ہے اور پارٹی میں شامل کرا سکتا ہے وہ اپنے خلاف کارروائی کی صورت میں ان ارکان کو کسی اور گروپ میں شامل کرا سکتا ہے ۔ وزیر اعظم کے سامنے دونوں پہلو ہیں ان کی اپنی پسند ہے وہ کس طرف جاتے ہیں ۔ حکومت اور پارٹی بچاتے ہیں یا اپنی بچی کھچی ساکھ ۔ کب تک مولانا طارق جمیل انہیں اکیلا ایماندار کی سند دیتے رہیں گے ۔ وزیر اعظم کو اس حوالے سے فیصلہ کرنا پڑے گا ۔ جہاں تک پنجاب کی حکومت چلانے کا معاملہ ہے تو پاکستان کا یہ سب سے بڑا صوبہ سنبھالے نہیںسنبھل رہا۔ عمران خان چند ماہ میں کئی چیف سیکرٹریز اور کئی آئی جیز بدل چکے ہیں اب ایک نئے چیف سیکرٹری کو لے آئے ہیں ۔ پوری کوشش ہے کہ عثمان بزدار کسی طرح چل نکلیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ عمران خان کی انا کا مسئلہ بن گیا ہے ۔ پنجاب کی وزارت علیا کے لیے پی ٹی آئی کے کئی رہنما تاک لگائے بیٹھے ہیں ۔ چودھری برادر ان خاموشی سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ پی ٹی آئی خود تقسیم ہو چکی ہے ۔