محمد سمیع گوہر
اب ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی بعد ملک سے کرپشن کے خاتمہ کی سنجیدگی کا معیار کیا تھا۔ کہتے ہیں جب کسی کام کا آغاز ہی اچھا نہ ہو تو پھر انجام اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم بنے کے لیے ان سیاسی رہنمائوں کو جنہیں ملکی سیاست میں جیتنے والے گھوڑے کہا جاتا ہے (اور لوٹے بھی) ایک بڑی تعداد میں اپنی پارٹی میں شامل کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو پرویز مشرف سے لے کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتوں کا حصہ تھے اور سیاست میں پیسہ خرچ کرکے کس طرح مع سود وصول کیا جاتا ہے کے ماہر تھے۔ پھر جب عام انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے مزید دس سے پندرہ آزاد اراکین کی شرکت کا مسئلہ درپیش ہوا تو جہانگیر ترین جو عمران خان کی اے ٹی ایم مشین سمجھے جاتے ہیں ان کا طیارہ اراکین کی خرید و فروخت کے لیے آزادانہ طور پر استعمال ہوا اور پوری قوم نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا۔ عمران خان جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو ملک کی سب سے بڑی کرپٹ جماعتیں سمجھتے ہیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کی کابینہ کے وزیروں اور مشیروں میں چالیس فی صد سے زیادہ لوگ وہ ہیں جو ماضی میں ان دونوں پارٹیوں کی حکومتوں کا حصہ رہے تھے۔
عمران خان کی حکومت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ملک میں آٹے اور چینی کی قلت کا شدید بحران ہوا اور ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ عوامی احتجاج پر حکومت کو تحقیقاتی کمیٹی بنانی پڑی اور جب دوران تفتیش یہ بات لیک ہوگئی کہ اس لوٹ مار میں ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار بھی ملوث ہیں تو عمران خان نے رپورٹ منظر عام پر آنے سے قبل ہی ان دونوں ساتھیوں کو بارے میں بیان دیا کہ یہ دونوں اس گھنائونے کام میں ملوث نہیں ہیں اور جب رپورٹ سامنے آئی تو عمران خان کی جانبداری کا بھانڈا پھوٹ گیا اور معاملہ فرانزک آڈٹ رپورٹ کے آنے تک ٹل گیا۔ ملک میں کام کرنے والے نجی شعبہ کے بجلی گھروں کی لوٹ مار اور ان کو ادا کیے جانے والے اربوں روپے مالیت کے سرکلر ڈیٹ کے سلسلے میں قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی تو اس میں بھی حکومت میں شامل مشیر تجارت صدیق دائود اور مشیر توانائی ندیم بابر کی بجلی کمپنیاں ناجائز منافع کمانے میں سر فہرست نظر آئیں۔
ان حالات میں اب جبکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں جن میں آصف زرداری، خورشید شاہ، مراد علی شاہ، فریال تالپور، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شریف، سعد رفیق، سلمان رفیق، ایس ایم احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی پر کرپشن، بدعنوانیوں اور منی لانڈرنگ کے متعدد مقدمات قائم کیے جاچکے ہیں تو دوسری جانب خود پی ٹی آئی کی حکومت کے وزیروں اور مشیروں جن میں پرویز خٹک، شوکت یوسفزئی، علیم خان، اعظم سواتی، غلام سرور، فردوس عاشق اعوان، خسرو بختیار، زلفی بخاری اور جہانگیر ترین شامل ہیں اور ان پر بھی قومی خزانے کو لوٹ کر اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے معالات زیر تفتیش ہیں تو کیا یہ سوال نہیں پیدا ہوگا کہ کیا ملک میں اب ایک شفاف احتساب ہوسکے گا۔ اس وقت عمران خان کی حکومت ایک ایسے بینک کی مانند ہے جس کو چلانے کے لیے دیانتدار افراد کے ساتھ ساتھ چوریوں اور ڈکیتیوں میں ملوث لوگ عملہ میں شامل کیے گئے ہیں کیا بینک محفوظ رہے گا؟ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں میں سے کس نے سب سے زیادہ قومی دولت کو لوٹا ہے اس کا فیصلہ تو عدالتوں ہی کو کرنا ہوگا، عمران خان اب منصف نہیں رہے کیونکہ ان کی صفوں میں بھی کرپٹ اور بدعنوان لوگ شامل ہیں۔ دوسری جانب قومی احتساب بیورو کا کردار بھی مشکوک ہو چکا ہے، ایف آئی اے بھی حکومت میں شامل افراد کا دفاع کررہی ہے۔ صحیح معنوں میں ملک میں غیر جانبدارانہ احتساب اسی وقت ہوسکے گا جب سب جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہ کرنے کی بنا پر عدالتیں انہیں ضمانت پر رہا کرچکی ہیں جبکہ حکومت میں شامل وزیروں اور مشیروں کے خلاف قومی احتساب بیورو کوئی کاروائی ہی نہیں کرتا نظر آتا ہے جس سے اس ملک میں احتساب اب ایک مذاق بن چکا ہے۔ کرپشن کے خلاف کاروائی کرنے والے ادارے خود کرپٹ عناصر سے بھرے پڑے ہیں، وہ حکومت کی جانب سے اشارہ ملنے پراس کے ناپسندیدہ سیاسی افراد کے خلاف ہی کاروائی کرتے ہیں اور حکومتی اہلکار دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں۔
موجودہ حالات میں ملک میں ایک نئے احتساب کمیشن کی تشکیل کی ضرورت ہے جس کے ارکان کے تقرر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے بجائے پارلیمنٹ کے سپرد کی جائے اور اس کے ارکان کے تقرر کے لیے ہر نام پر پارلیمنٹ غور کر ے اور وہ ہی قومی احتساب کمیشن کے ٹی او آرز بھی مرتب کرے۔ اس کے بعد ہی ملک میں ایک آزادنہ اور خود مختار نظام احتساب کا عمل شروع ہوسکے گا کیونکہ احتساب کے نام پر کام کرنے والے تمام موجودہ ادارے عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔